قومی کرکٹ ٹیم اختلافات کا شکارہے ورلڈ کپ میں کا میا بی ممکن نہیں ،سرفراز نواز

پیر 26 جنوری 2015 12:27

قومی کرکٹ ٹیم اختلافات کا شکارہے ورلڈ کپ میں کا میا بی ممکن نہیں ،سرفراز ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 26 جنوری 2015ء) سابق ٹیسٹ کرکٹر سرفراز نواز نے کہا کہ موجودہ قومی کرکٹ ٹیم شدید اختلافات کا شکارہے،ٹیم ورلڈ کپ 2015ء کیلئے غیر متوازن ہے،پاکستانی ٹیم کوارٹر فائنل تک رسائی حاصل کرسکے گی جبکہ آگے کھیلنا ٹیم کیلئے سخت مشکل ہوگا،ٹیم چیف سلیکٹر معین خان کو فوری طور پر واپس بلایا جائے تاکہ ٹیم کے اندر موجود اختلافات کو ختم کیا جاسکے۔

ان خیالات کا اظہار انہو ں نے پیر کے روز آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ سعید اجمل اور حفیظ کے بغیر ٹیم اچھی کارکردگی پیش نہیں کرسکے گی جبکہ جنید خان کا ورلڈ کپ میں کھیلنا بھی مشکوک نظر آرہا ہے۔انہو ں نے کہا کہ قومی ٹیم کے اندر جو تبدیلیاں کی گئیں اس کی وجہ سے ٹیم کے اندر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے قومی ٹیم کے چیف سلیکٹر معین خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ مصباح الحق کو ون ڈے کپتان نہیں بنانا چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ شاہد خان آفریدی کو کپتان بنایا جائے اور ساتھ ہی یہی مطالبہ کیا کہ معین خان کو فوری طور پر واپس بلایا جائے کیونکہ ان کی وجہ سے ٹیم شدید اختلافات کا شکار ہورہی ہے۔

سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پاک بھارت میچ کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاک بھارت میچ جوئے کی نظر ہونے کا خدشہ ہے اور اس مقصد کیلئے انٹرنیشنل سطح پر بکیز نے رابطے شروع کردئیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی سی بی کو چاہئے کہ وہ ٹیم منیجر تنویر اکرام کو کنٹرول کرے۔انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ میں بہتر کارکردگی کیلئے قومی ٹیم کو بیٹنگ اور فیلڈنگ میں زیادہ سخت محنت کرنی پڑے گی اور بیٹنگ سائیڈ کو 350رنز کا ٹارگٹ دینا پڑے گا۔

سرفراز نواز نے کہا کہ انتخاب عالم،اقبال قاسم اور ہارون رشید پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس کا سربراہ غیر کرکٹر ہے اور کھلاڑیوں کا پیسہ دوسرے کاموں اور عیاشیوں پر خرچ ہو رہا ہے اور پی سی بی نے نااہلی کا ثبوت دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان کو اس پر سخت ایکشن لینا چاہئے اور کرکٹ کا پیسہ کھلاڑیوں کیلئے استعمال ہونا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ چےئرمین پی سی بی نے کہا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اندر کسی کے پاس دو عہدے نہیں ہونگے اسکے باوجود ابھی بھی کچھ لوگوں نے دو عہدے رکھے ہوئے ہیں۔

متعلقہ عنوان :