ریاست میں آبادی کے تناسب میں چھیڑ چھاڑ کی قطعاََ اجازت نہیں دیں گے‘شبیر شاہ

بدھ 28 جنوری 2015 12:43

سرینگر(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء)ڈیموکریٹک فریڈم پارٹی کے سربراہ شبیر احمد شاہ نے کہا ہے کہ ایک گہری سازش کے تحت بیرون ریاست سے ہزاروں لوگوں نے جموں آکر سٹیٹ سبجلٹ اور دیگر جعلی سندات حاصل کرلی ہیں ۔انھوں نے جموں میں رہ رہے مہاجرین کے حق میں ووٹرکارڑ ،سٹیٹ سبجکٹ اور دیگر مراعات دئے جانے کے اقدامات کو رد کرتے ہوئے کہا ریاست کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنے اور اسے مٹانے کے لئے مختلف محازوں پر سازشیں رچی جارہی ہیں۔

شبیر احمد شاہ نے ریاست کی حریت پسند قیادت اور دانشوروں کو یکسوئی و اتحاد کی دعوت دیتے ہوئے حکومتی سطح پر کی جارہی سازشوں کا مقابلہ کرنے کی صلاح دی۔ شبیر احمد شاہ نے پارٹی کے خصوصی اجلاس سے اپنے صدارتی خطاب میں مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کے موثر و کلیدی کردار، جموں میں شرنارتھیوں کی باز آبادکاری اور حریت پسند قیادت کے مابین اتحاد و اتفاق جیسے موضوعات پر بولتے ہوئے کہا کہ سنگھ پریوار،آر ایس ایس اور فرقہ پرست قوتیں ہمیشہ سے ریاست میں مسلم شناختی کردار کوختم کرنے کے درپے رہے ہیں اور اب جبکہ انہیں مرکز میں اقتدار حاصل ہوا ہی، انھوں نے ریاست کو مذہب اور فرقہ وارنہ بنیادوں پر تقسیم کرنے کے اپنے ایجنڈے پر کام کرنا شروع کیا ہے ۔

(جاری ہے)

شبیر احمد شاہ نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ریاست کی کئی بھارت نواز تنظیمیں اور ان کے رہنماء حصول اقتدار کی خاطر بھاجپا کے ان خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے آمادہ نظر آرہے ہیں اور اس سلسلے میں انھوں نے لب کشائی کے بجائے معنی خیز چپ اختیار کررکھی ہے ۔شبیر احمد شاہ نے پارٹی کارکنان پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ عوام کو شرنارتھیوں کو حقِ شہریت سے متعلق حکومتی ارادوں اور اس سلسلے میں پیدا شدہ صورت حال اور اس کے عوامل سے روشناس کریں اور گھر گھر جاکر لوگوں کو باخبر کریں۔

انھوں نے ریاست کی مسلم شناخت مٹانے کے ہر حربے کے خلاف پْر زور مزاحمت کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم ریاست میں آبادی کے تناسب میں چھیڑ چھاڑ کی قطعاََ اجازت نہیں دیں گے ۔شبیر احمد شاہ نے پارلیمانی کمیٹی کی مہاجرین سے متعلق سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ریاست جموں کشمیر کی ڈیمو گرافی کو تبدیل کرنے کی ہر سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا ۔

انھوں نے ان سفارشات کو ہندوتوا کا چربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ دہلی میں بیٹھے حکمران جموں کشمیر کی مسلم اکثریتی شناخت کو تبدیل کرنے کے لئے گزشتہ کئی دہائیوں سے اپنی گھناونی سازشوں پر عمل پیرا ہیں اور اس وقت بھی جموں میں جہاں ایک جانب پاکستانی زیر انتظام کشمیر چلے گئے لوگوں کی املاک پر فرقہ پرست قوتوں نے قبضہ جمایا ہے وہی پر ایک سازش کے تحت بیرون ریاست سے ہزاروں لوگوں نے جموں آکر سٹیٹ سبجلٹ اور دیگر جعلی سندات حاصل کرلی ہیں ۔

شبیر احمد شاہ نے واضح کیا کہ اس طرح کے سنجیدہ اور نازک معاملات میں اگر کوئی جلد بازی کی گئی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں اورریاست میں ایک نہ ختم ہونے والے سیاسی بحران کو جنم دے سکتا ہے ۔مزاحمتی قوتوں کو اس سلسلے میں ایک مشترکہ اور سنجیدہ حکمت عملی وضع کرنے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے شبیر احمد شاہ نے کہا کہ ایک متفقہ اور موثر لائیحہ عمل ہی ہمیں ان ریشہ دوانیوں سے نجات دلاسکتا ہے ۔

اتحاد ِعمل کے اپنے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے شبیر احمد شاہ نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم یکسو اور یک رائے ہوکر آگے بڑھیں اور اس سلسلے میں وحدت عمل کے ساتھ ساتھ وحدت فکر و تصور ایک لازمی شرط ہے ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں واضح کیا کہ ہم ان رفوجیوں کی باز آباد کاری کے خلاف نہیں لیکن تقسیم ہند کے وقت طے کئے گئے منصوبے اور فیصلے کے مطابق انہیں بھارت کی دیگر ریاستوں میں آباد کرنا ایک تسلیم شدہ امر ہے اور اس میں کسی قسم کی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا بھی نہ ہوگا ۔

شبیر احمد شاہ نے بھارتی حکمرانوں اورحکومت کے اس یکطرفہ اور غیر آئینی فیصلے کو چلینج کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا کوئی فیصلہ لینے سے قبل ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بھی سوچنا ہوگا جنہیں تقسیم ہند کے موقعے پر جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا اور ان لوگوں کے ورثاء کے حقوق کے بارے میں بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا جو اْن لاکھوں مسلمانوں کے وارث ہیں جنہیں مہاراجہ ہری سنگھ،مہاراجہ پٹیالہ ، مہر سنگھ مہاجن اور سردار پٹیل کی مکارانہ سازشوں کے نتیجے میں بہیمانہ طریقے سے قتل کیا گیااور لاکھوں مسلمانوں کو مہاجرت کی زندگی اختیار کرنے پرمجبور کیا گیا ۔

شبیر احمد شاہ نے اپنے بیان میں اس طرح کے غیرآئینی اقدامات کی سخت مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہندوتوا کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے ایک طرف ریاست سے باہر بیاہی جارہی بیٹیوں کو بدستور حقِ شہریت دئے جارہے ہیں ،جو کہ ریاستی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے اور دوسری طرف مہاجرین کی آڑ میں ریاست سے باہر لائے گئے لوگوں کو ریاست میں بسایا جارہا ہے ۔

انھوں نے آزادی پسند قیادت کو اس سلسلے میں سیاسی بصیرت اور پختگی سے کام لینے اور وقت کی پکار پر کان دھرنے کی اپیل دوہراتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس طرح کی سازشوں اور یشہ دوانیوں کے خلاف ایک جٹ ہوکر اپنی قوت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ریاست کی جغرافیائی اور آبادیاتی ہییت تبدیل کرنے اور اس کی آڑ میں تہذیبی جارحیت اوریلغار کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو ۔

انھوں نے کہا کہ وقت تیزی سے نکل رہا ہے اور اگر ہم بھارتی عزائم پر نظر رکھنے اور اس کٹھن صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے میں ناکام رہے تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی اوراس طرح کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے نئے سرے سے اپنی حکمت عملی طے کرنے کے لئے آپسی اتحاد و اتفاق کے مظاہرے کے لئے عملی اقدامات کرنے ہوں گی۔