اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے ملازم ظفر محمود راجہ کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پر فیصلہ محفوظ

بدھ 28 جنوری 2015 13:44

اسلام آباد( اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء ) اسلام آباد ہائی کورٹ میں وفاقی ترقیاتی ادارہ (سی ڈی اے ) کے ملازم ظفر محمود راجہ کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری پلاٹ ٹرانسفر کیس میں دو کروڑ غبن کیس کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا ۔جسٹس نور الحق این قریشی نے پولیس کے انوسٹی گیشن آفیسر پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کیا پولیس کا کام ملزموں کو تحفظ دینا ہے آپ کو کس قانون نے اجازت دی ہے کہ آپ کو ایف آئی آر درج جس شخص کا نام ہوتا ہے نہ تو اس کا چالان پیش کرتے ہیں اور نہ ہی جو گرفتار کیا جاتا ہے اس کا چالان پیش کرتے ہیں ۔

جسٹس نور الحق این قریشی نے کہا کہ کیوں نہ عدالت انوسٹی گیشن آفیسرز کے خلاف مقدمات قائم کرنے کا حکم دے ۔ اسلام آباد کی صورتحال بالکل بگڑ چکی ہے پولیس کا نظام بھی ٹھیک نہیں ہے ۔

(جاری ہے)

بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں ظفر محمود راجہ کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری کیس کی سماعت ہوئی ۔ جسٹس نور الحق این قریشی پر مشتمل سنگل بینچ نے کیس کی سماعت کی بیرسٹر جہانگیر جدون وفاق کی جانب سے پیش ہوئے اور مخالف وکیل نوید ملک عدالت میں پیش ہوئے ۔

سماعت کے دوران عدالت کو بتایا گیا کہ سی ڈی اے نے 2004 میں اینگرو فارم کے ساتھ ایک پلاٹ الاٹ کیا تھا جس پر ملزم راجہ ظفر محمود نے دھوکہ دیہی کرتے ہوئے اس پلاٹ کو دوسرے فریق کو بیچ کر اگلے ہی روز پلاٹ پر قبضہ کروا دیا ۔ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ راجہ ظفر محمود اور ناصر سعید یہ سی ڈی اے کے ملازم ہیں جو مختلف دھوکہ دیہی کے ساتھ لوگوں کو پلاٹ ٹرانسفر کرواتے ہیں اور آ گے بیچ دیتے ہیں عدالت کو بتایا گیا کہ اس شخص نے 2004ء میں ایک پلاٹ الاٹ کروایا اور اسی پلاٹ کو 2012ء میں ایک نئے فریق کے پاس بیچ دیا اس وقت ملزم کیخلاف درخواست گزار نے پولیس سے رجوع کیا پولیس نے موقع پر موجود راجہ ظفر محمود و دیگر لوگوں کو گرفتار کرتے ہوئے اسلحہ برآمد کرنے کے بعد مقدمہ درج کیا ۔

جسٹس نور الحق این قریشی نے انوسٹی گیشن آفیسر سے استفسار کیا کہ آپ نے ملزم کیخلاف کیا تحقیقات کی ہیں کیا اس کیخلاف چالان مکمل کیا ہے انوسٹی گیشن آفیسر نے عدالت کو بتایا کہ مجھے ایک دن پہلے اس کیس کی فائل ملی ہے پہلے کسی اور انوسٹی گیشن آفیسر کے پاس تھی ۔ جسٹس نور الحق این قریشی نے کہا کہ اسلام آباد کی کیسی صورتحال ہے جو ملزم پکڑا جاتا ہے اس کا چالان پیش ہوتا ہے اور دیگر لوگ جن کیخلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے ان کے نام شامل ہوتے ہیں ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی اور نہ ہی ان کیخلاف چالان پیش کیا جاتا ہے کیا یہ قانون صرف اسلام آباد کیلئے ہے کس آئی جی نے یہ مخصوص قانون اسلام آباد کیلئے بنایا ہے ۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزم سی ڈی اے کا سرکاری ملازم ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی اور فراڈ کرتے آرہے ہیں یہ پورا گروپ ہے جو لوگوں کو پلاٹ ٹرانسفر کرواتے ہیں اور کروڑوں کی رقم وصول کرتے ہیں عدالت نے کہا کہ کیا سی ڈی اے یہی کام کرتا ہے کروڑوں روپے کے غبن کئے جائیں ۔ عدالت نے دلائل مکمل ہونے کے بعد راجہ ظفر محمود کی درخواست ضمانت قبل ازگرفتاری کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے آئندہ سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کردی

متعلقہ عنوان :