ایم ایم اے بحالی کا کوئی امکان نہیں، جے یو آئی (ف)اور جماعت اسلامی کا اختلاف دینی جماعتوں کے اتحاد میں رکاوٹ ہے، سربراہ ملی یکجہتی کونسل

بدھ 28 جنوری 2015 13:45

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء) ملی یکجہتی کونسل اور جے یو پی (نورانی) کے سربراہ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کہاہے کہ فی الوقت ایم ایم اے بحالی کا کوئی امکان نہیں، جے یو آئی (ف)اور جماعت اسلامی کا اختلاف دینی جماعتوں کے اتحاد میں رکاوٹ ہے، قومی ایکشن پلان کی مکمل حمایت کرتے ہیں مگر چاہتے ہیں حکمران دہشت گردی میں تفریق ختم کریں، 21ویں آئینی ترمیم کے باعث سینکڑوں افراد کے قاتل دہشت گردوں کو تحفظ دیدیاگیا، جنرل راحیل پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ نوازشریف قومی اتفاق رائے کوسبوتاژ کرنے کیلئے کوشاں ہیں، دہشت گرد ممتاز قادری نہیں بلکہ ن لیگی قیادت کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں، دینی کتب پر پابندی افسوسناک، استدلال کی ہمیشہ گنجائش رہتی ہے، حکمران تکفیریت کا خاتمہ کریں۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ”اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 28 جنوری 2015ء “ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا ۔ صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر نے کہاکہ متحدہ مجلس عمل ایک بہترین اتحاد تھا لیکن جمعیت علمائے اسلام ف اور جماعت اسلامی کے باہمی اختلاف کے باعث یہ اتحاد ختم ہوگیا جس کے بعدہم نے علامہ ساجد نقوی، لیاقت بلوچ کے ساتھ ملکر تمام رہنماؤں سے متعدد ملاقاتیں کیں مگر کامیاب نہ ہوسکے۔

ایک سوال پر انہوں نے کہاکہ ہم نے مولانافضل الرحمن کو دوبارہ ملی یکجہتی کونسل میں آنے کی دعوت دی ہے اور کہاہے کہ 27 جماعتیں اس اتحاد میں شامل ہیں پہلے بھی ایم ایم اے یکجہتی کونسل کے باعث ہی بنی تھی اور اب بھی یہ وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس وقت مذہبی سیاسی جماعتوں کو ہر طرف سے نشانہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے اور ایم ایم اے کی غیر فعالیت کے باعث دینی جماعتوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہاہے ۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ جماعت اسلامی اور جے یو آئی ف میں 2002ء کے بعد تخلیاں پیدا ہوئیں جو آج تک برقرار ہیں ایک جانب جماعت اسلامی تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ہے تو دوسری جانب مولانافضل الرحمن مسلم لیگ ن کے حمایتی ہیں جبکہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی حریف ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ہم نے مولانا کو ملی یکجہتی میں آنے کی دعوت دی ہے تاکہ اس بڑے اتحاد کو مزید فعال کرکے ایم ایم اے یا کسی دوسرے نام سے انتخابی اتحاد کیلئے کام کیا جائے۔

انہوں نے کہاکہ اس سلسلے میں مولانافضل الرحمن نے تحریری طور پر پیشکش کا مطالبہ کیا جسے ہم نے پورا کردیا مگر ابھی تک ان کی جانب سے کوئی مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ قومی ایکشن پلان کی مکمل حمایت کرتے ہیں ہم چاہتے ہیں کہ دہشت گردی کا جڑ سے خاتمہ کیا جائے لیکن افسوس21ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سینکڑوں افراد کے قاتلوں کو کھلی چھوٹ دیدی گئی اور ایسا لگتاہے کہ انہیں تحفظ فراہم کیاگیاہے جس پر ہمیں شدید تحفظات ہیں ہم مطالبہ کرتے ہیں دہشت گرد کا کوئی مذہب و قوم نہیں ہوتی بلکہ دہشت گرد چاہے مذہبی طور پر کارروائی کرے یا لسانیت کے نام پر کرے اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے اور اس تفریق کو ختم کیاجانا چاہیے۔

انہوں نے کہاکہ میں پہلے بھی کہہ چکاہو ں کہ میاں نوازشریف قومی اتفاق رائے کو سبوتاژ کرنے کے درپے ہیں اس سلسلے میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ غور کریں کہ کس طرح قومی اتفاق رائے سبوتاژ ہورہاہے۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گرد ممتاز قادری نہیں بلکہ ن لیگی قیادت کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں ممتاز قادری کا کیس فوجی عدالتوں میں لے جانے کی باتیں حکمران کی بدیانتی کو عیاں کررہی ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ وزیراعظم نوازشریف جاوید ہاشمی کا شکریہ ادا کریں جنہوں نے ان کے اقتدار کو بچالیا کیونکہ میاں نوازشریف کی پالیسیوں کے باعث ان کے اقتدار کی ناؤ ڈوبنے کے قریب ہی تھی۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ دینی کتب بارے بتایا جائے کہ کون سی کتابیں متنازعہ ہیں کیونکہ استدلال کی گنجائش ہمیشہ رہی ہے بریلوی، شیعہ، دیو بندی اور اہلحدیث علیحدہ فقہ ضرور ہیں اور علمی بحث و مباحثہ ہمیشہ سے ہواہے لیکن کسی کے قتل کے فتوے کسی نے نہیں دیئے اگر حکمرانوں نے ملک میں صحیح معنوں میں امن قائم کرنا ہے تو مختلف مسالک کے لوگوں کے قتال کا حکم دینے والوں اور کافر کافر کے نعرے لگانے والوں کیخلاف کارروائی کرنا ہوگی کیونکہ تکفیریت کی وجہ سے مسائل جنم لیتے ہیں ۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل اتحاد کیلئے کوشاں ہے ۔