21ویں ترمیم کی امتیازی شقیں حکومتی پاکستان کو واپس لینا ہونگی، مولانا فضل الرحمن

ہفتہ 7 فروری 2015 17:43

21ویں ترمیم کی امتیازی شقیں حکومتی پاکستان کو واپس لینا ہونگی، مولانا ..

مظفرآباد(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 07فروی 2015ء) جمعیت علماء اسلام ف کے امیر اور چیئرمین قومی کشمیر کمیٹی مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ 21ویں ترمیم کی امتیازی شقیں حکومتی پاکستان کو واپس لینا ہونگی۔ ہم مدارس اسلامیہ، شعائر اسلام اوردینی اقدار کا دفاع کرینگے۔آزاد کشمیر و پاکستان کے 26ہزار سے زاید مدارس رجسٹرڈ ہیں۔ 22ہزار مدارس کی رجسٹریشن زیر التواء ہے تو اس میں قصووار ادارے ہیں۔

اوبامہ نے بھارت کی حمایت کر کے دراصل مقبوضہ کشمیر میں اس کی قابض افواج کے مظالم کی حمایت کی ہے۔ کشمیری امریکا ،بھارت گٹھ جوڑ کسی صورت تسلیم نہیں کرتے۔ ان خیالات کا اظہار مولانا نے گزشتہ روز جمعیت علماء اسلام جموں و کشمیر کے اعلیٰ سطحی وفد سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وفد کی قیادت امیر جمعیت علماء اسلام جموں و کشمیر مولانا سعید یوسف نے کی جبکہ وفد میں سیکرٹری جنرل مولانا امتیاز احمد عباسی ، سیکرٹری قاری محمد افضل خان، مفتی محمد شفیق میر، مولانا عبدالماجد خان، مولانا یونس شاکر، مفتی عبدالعزیز قاسمی،حافظ حسین احمد حسان، مولانا ہدایت اللہ، مولانا حزب الحق، مولانا ضیاء الحق ضیا، مولانا عبدالحمید ، مولانا ضیاء الحق مغل،مولانا محمد افضل خان، مولانا الطاف بٹ، مولانا قاری افتخار ، مولانا الطاف حسین اور مولانا قاری سردار الطاف عباسی سمیت دیگر عہدیداران جمعیت و کارکنان نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

ملاقات دارالحکومت کے قائد فائیو سٹار ہوٹل کے کانفرنس ہال میں ہوئی۔علماء نے آزاد کشمیر کی داخلی، سیاسی صورتحال سے مولانا کو آگاہ کیا۔ مولانا نے جمعیت علماء اسلام جموں و کشمیر کی قیادت پر مکمل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اقامت دین ہمارا ایجنڈا ہے اور اللہ کی زمین پر اللہ کے نظام کے نفاذ سے بڑا کوئی شعور نہیں ہو سکتا۔ کسی کی خواہش پر جماعت کو نہیں چلایا جا سکتا۔

بسا اوقات زمینی اور اور جماعتی معاملات دیکھ کر سب کو فیصلہ کرنا لازم ہوتا ہے اور امیر کی اطاعت ضروری ہے۔ مولانا نے مزید کہا کہ 21ویں ترمیم میں امتیازی شقیں قابل اخراج ہیں۔ ملک میں دینی اور انگریزی تعلیم کے طلبہ میں تفریق نقصان دہ ہے۔ نائن الیون سے لیکر سانحہ پشاور تک جتنی بھی دہشت گردانہ کارروائیاں ہوئیں ان میں سے کسی بھی دینی مدارسے کا طالب علم ملوث نہیں پایا گیا۔

طاغوتی طاقتیں مسلم حکمرانوں اور خصوصاً پاکستان پر اپنا ناجائز دباوٴ بڑھا کر من پسند فیصلوں کی ٹھانی ہے۔ علماء استقامت اور اخوت کیساتھ دعوت و تبلیغ و تعلیم کا کام جاری رکھیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اوبامہ کی مودی کو تھپکی کا واضح مقصد یہی ہے کہ امریکا کشمیر میں مظالم کی حمایت کرتا ہے۔ بھارت نے خود سلامتی کونسل میں کشمیر میں استصواب رائے کی قرارداد پیش کی۔

اور اقوام متحدہ نے اسے منظور کر لیا۔ مگر 67سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل نہ کروانا نالائقی ہے۔ اب بھارت کس منہ سے اسی سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بننا چاہتا ہے کہ جس ادارے کی قرار دادوں سے انحراف کر رہا ہے۔ دنیا اپنے اندر منصب مزاجی پیدا کریں اور بھارت کو خطے کا تھانیدار بننے سے روکے ۔ ورنہ یہ جنوبی ایشیاء ہی نہیں پوری دنیا کیلئے خطرناک ثابت ہو گا۔ دنیا کا امن صرف اور صرف مسئلہ کشمیر کے پرامن اور عوامی خواہشات کے عین مطابق حل میں مضمر ہے۔ انہوں نے حکومت پاکستان کو باور کیا کہ دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں اور ہمیشہ ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی اور بقائے امن کیلئے مدارس اور علماء نے کردار ادا کیا ہے۔ لہذا حکومت 21ویں ترمیم کی امتیازی شقیں بہر صورت واپس لے۔