پشاور :حیات آباد میں مسجد کے باہر خود کش دھماکہ ،19 افراد شہید چالیس زخمی (اپ ڈیٹ)

جمعہ 13 فروری 2015 16:12

پشاور :حیات آباد میں مسجد کے باہر خود کش دھماکہ ،19 افراد شہید چالیس ..

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔13فروری 2015ء) پشاور کے علاقے حیات آباد میں مسجد کے باہر خود کش دھماکہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں 19 افراد شہید اور پچاس افراد زخمی ہوگئے ہیں ، دھماکے میں ہلاکتوں کا اندیشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے ، اس حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ دھماکہ مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہوا ، حیات آباد گنجان آباد علاقہ ہے جہاں کاروباری مراکز بڑی کثیر تعداد میں موجود ہیں اور اسی لئے یہاں عوام کا ہجوم رہتا ہے ، دھماکے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور ریسکیو اہلکار جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور امدادی کارروائیاں شروع کر دیں ، دھماکے سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور وہ اپنی جانیں بچانے کیلئے دیوانہ وار بھاگ کھڑے ہوئے ، زخمیوں کو مقامی ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے ۔

(جاری ہے)

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکہ خودکش تھا ، پانچ مشکوک افراد پولیس کی وردیوں میں آٓئے اور ان میں سے ایک نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا ، دھماکے کے بعد لوگ جان بچانے کے لئے بھاگے تو دہشتگردوں نے اندھا دھند فائرنگ کر دی ، دھماکے کے بعد مسجد کے باہر کھڑی متعدد گاڑیوں میں آگ لگ گئی ۔ دھماکے کی جگہ کے قریب کئی حساس عمارتیں ، کاروباری مراکز ، مساجد اور امام بارگاہیں موجود ہیں ۔

دہشتگردوں کی جانب سے ابھی تک فائرنگ کا سلسلہ مسلسل جاری ہے ۔ دھماکے کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے علاقے کو گھیرے میں لے لیا اور کارروائی کا آغاز کر دیا ، ایلیٹ فورس کے دستوں نے مسجد کے اندر آپریشن شروع کر دیا ہے ، مسجد کے اندر سے بھی نمازیوں اور سکیورٹی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی ، صوبائی حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے ، وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ،صدر ممنون حسین , قائد ایم کیو ایم الطاف حسین ،مولانا فضل الرحمان , سابق صدر آصف علی زرداری , امیر جماعت اسلامی سراج الحق ,وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان , عمران خان اور مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے دھماکے کی شدید مذمت کی گئی ہے ، میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ دہشتگردوں کی کارروائیاں ہمارے عزائم کا راستہ نہیں روک سکتیں ، ہم دہشتگردوں کیخلاف کارروائیاں جاری رکھیں گے ۔

عمران خان نےبم دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک کو عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ دھماکہ سکیورٹی اداروں‌کی ناکامی ہے , اس سے قبل عمران خان جائے حادثہ پر پہنچے تو سکیورٹی اہلکاروں‌نے انہیں‌جائے حادثہ کے قریب جانے سے روک دیا , دوسری طرف حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں لائے گئے زخمیوں کی تعداد 56 ہوگئی ہے اور ہسپتال میں جگہ کم پڑنے کے باعث زخمیوں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال لیجانے کی ہدایت کی گئی ہے ، ڈی سی پشاور نے بتایا کہ پہلے قریبی عمارت سے فائرنگ کی گئی اور اس کے بعد خودکش دھماکہ کیا گیا جس سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ گئی ، اس کے علاوہ دہشتگرد جس گاڑی میں سوار ہو کر آئے انہوں نے واردات کے بعد اسے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے قریب آگ لگا دی تاکہ گاڑی سے کوئی شواہد حاصل نہ کئے جاسکیں ، ڈی سی نے بتایا کہ زخمیوں کو علاج معالجے کی مکمل سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں ، ایس پی کینٹ نے بتایا کہ تین خود کش حملہ آوروں‌ نے حملہ کیا , دو کی خود کش جیکٹ دھماکے سے پھٹ گئی لیکن تیسرے کی جیکٹ پھٹ نہ سکی اور وہ پولیس کی گولی لگنے سے ہلاک ہوا ,حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ترجمان کے مطابق 19‌افراد کی لاشیں‌لائی جا چکی ہیں‌ .سیکرٹری صحت کے مطابق 13 لاشوں‌کی شناخت کے بعد انہیں‌ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے .انہوں‌ نے بتایا کہ زخمیوں‌کو تمام ضروری طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں‌.اس کے علاوہ جائے حادثہ کے قریب زیر تعمیر عمارتوں‌میں‌سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے اور سکیورٹی ادارے ان عمارتوں‌کی تلاشی لے رہے ہیں‌.وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے دھماکے کی رپورٹ طلب کر لی ہے ,آئی جی خیبر پختونخوا ناصر درانی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا جبکہ دوسرے کی جیکٹ نہ پھٹ سکی , امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دہشتگرد مسجد کے ساتھ زیر تعمیر عمارت سے مسجد کی بیرونی دیواروں‌کی تاریں‌کاٹ کر اندر داخل ہوئے ,کیونکہ مرکزی دروازے پر موجود سکیورٹی کی وجہ سے مسلح‌ شخص کا اندر داخل ہونا مشکل ہے , انہوں‌ نے بتایا کہ ایک دہشتگرد نے خود کو اڑا لیا جبکہ دوسرے کو نمازیوں‌نے گردن سے پکڑ لیا جس کی وجہ سے وہ خود کو اڑا نہ سکا , ناصر درانی نے کہا کہ مسجد قبائلی علاقے کی سرحد پر واقع ہے امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ دہشتگرد اسی علاقے سے داخل ہوئے ,. دہشتگردوں‌کی تعداد چار تھی یا اس سے زیادہ ابھی اس بارے میں‌کچھ کہنا قبل از وقت ہے .اس کے علاوہ ممکن ہے کہ ملک میں‌دہشتگردوں‌کے خلاف جاری ضرب عضب آپریشن کے ردعمل کے طور پر یہ کارروائی کی گئی ہے , صوبائی وزیر اطلاعات مشتاق غنی نے جائے حادثہ کے دورے کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کے دوران کہا کہ ہم ایسی کسی بھی کارروائی کی مذمت کرتے ہیں‌ لیکن ایسی کارروائیوں‌سے ہمارے حوصلے پست نہیں‌ ہونگے .

متعلقہ عنوان :