1999ء میں پاکستانی ٹیم ایک دن میں نہیں بنی تھی، 1999 ورلڈ کپ میں بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال سکواڈ کا

ہفتہ 14 فروری 2015 12:51

1999ء میں پاکستانی ٹیم ایک دن میں نہیں بنی تھی، 1999 ورلڈ کپ میں بے پناہ ..

لندن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 14فروی 2015ء)پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق آل راؤنڈراظہر محمود نے کہا ہے کہ 1999ء میں پاکستانی ٹیم ایک دن میں نہیں بنی تھی، 1999 ورلڈ کپ میں بے پناہ صلاحیتوں سے مالا مال سکواڈ کا کوئی ثانی نہیں۔نجی ٹی وی کوانٹرویومیں اظہر محمود کا کہنا تھا کہ میگا ایونٹ کا سکواڈ ایک دن میں نہیں بنا۔اظہر محمودنے کہا کہ وہ ٹیم وسیم بھائی نے تیار کی تھی۔

ورلڈ کپ سے پہلے وہ بطور کپتان آتے جاتے رہے لیکن انہوں نے ایسے کھلاڑیوں کے گروپ سوچ لیا تھا جس کے ساتھ وہ کافی عرصہ تک کھیلنے کے خواہش مند تھے'۔انہوں نے کہا کہ '1999 ورلڈ کپ سکواڈ میں شامل وجاہت اللہ واسطی کے علاوہ کوئی کھلاڑی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس نے انٹرنیشنل کرکٹ کا مزا نہیں چکھا'۔ٹورنامنٹ میں 13 وکٹیں اور ایک دو بہترین اننگز کھیلنے والے اظہر کا کہنا تھاکہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہم اپنی کوششوں کو منطقی انجام تک نہ پہنچا سکے'۔

(جاری ہے)

بڑی ٹیم کا اندازہ ہمیشہ اس کے بینچ کی قوت سے لگایا جا سکتا ہے۔آپ دیکھیں کہ اْس وقت وقار یونس، مشتاق احمد اور سلیم ملک جیسے کھلاڑی ہمارے بینچ کا حصہ تھے'۔ اظہر محمود نے کہا کہ 'اس طرح کی صورتحال سے بہتر انداز میں نمٹنے کیلئے ہمیں بہت پہلے ہی بیس لڑکوں کو منتخب کرنا چاہیئے تھا'۔دیکھیں اب کیا ہو رہا ہے۔ ورلڈ کپ سے پہلے ہونے والی ون ڈے سیریز میں شامل کچھ پلیئرز اب موجود نہیں۔

اسی طرح کچھ ایسے لڑکے جو ابتدائی سکواڈ میں شامل نہیں تھے، متبادل کے طور پر منتخب کر لیے گئے'۔انور علی اور بلاول بھٹی کو بحیثیت آل راوٴنڈر ٹیم کے ساتھ رکھا گیا لیکن اب اچانک وہ کہیں نظر نہیں آ رہے'۔سکواڈ اور کھلاڑیوں کو بننے کیلئے انہیں وقت دینا ضروری ہے۔ نیوزی لینڈ کے خلاف 93 رنز دینے پر سبھی بلاول کے پیچھے پڑ ھ گئے ہیں'۔کھلاڑیوں کو کچھ وقت دیں اور یہ تسلیم کریں کہ بعض اوقات حریف ٹیم غیر معمولی کھیل کا مظاہرہ بھی کرتی ہے'۔

'آج کل کے دور میں کوئی بھی باوٴلر مار کھا سکتا ہے، بالخصوص اگر وہ پاور پلے میں باوٴلنگ کر رہا ہو۔لیکن ہم ہمیشہ ہی شارٹ ٹرم حل ڈھونڈتے ہیں ، نتیجتاً ہمارا موجودہ سکواڈ غیر متوازن ہے۔'یقیناً ٹیم میں ایک دو تبدیلیوں کی گنجائش ہو سکتی ہے لیکن چار یا پانچ نئے چہروں کی نہیں'۔پاکستان اپنی کمزوریاں دور کرنے میں مصروف ہے، بالخصوص باوٴلنگ کے شعبہ میں۔

ہمارا موجودہ پیس اٹیک کسی بھی ورلڈ کپ کے مقابلے میں اس مرتبہ سب سے کمزور اور ناتجربہ کار ہے۔پاکستان کیلئے 21 ٹیسٹ اور 143 ون ڈے کھیلنے والے اظہر سمجھتے ہیں کہ انورعلی اور بلاول بھٹی کو لازمی ٹیم پلان کا حصہ ہونا چاہیے۔'وہ کہتے ہیں کہ بلاول یا انور میں سے کوئی ایک ٹیم میں شامل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے میرے اور عبدالرزاق کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا، جب ایک کپتان اسے اور دوسرا کپتان مجھے منتخب کرتا تھا۔

لیکن میں انہیں بار بار بتاتا تھا کہ ٹیم میں ایک سے زائد آل راوٴنڈرز کی گنجائش موجود ہے'۔اس سے ٹیم کو توازن ملتا ہے۔ 1999 میں ہمارے پاس وسیم اکرم، شاہد آفریدی، عبدالرزاق اور میں تھا۔ ہم سب نے مل کر کھیلا۔ بدقسمتی سے اِس وقت ہمارے پاس ٹیم میں پانچواں باوٴلر نہیں '۔راولپنڈی میں پیدا ہونے والے اظہر کا ماننا ہے کہ حارث سہیل اتنے تجربہ کار نہیں کہ پانچویں باوٴلر کا کردار نبھا سکیں۔

ان کی خیال میں کپتان مصباح الحق کے پاس ایک ہی آپشن بچا ہے اور وہ ہے ٹیم منتخب کرتے ہوئے مثبت سوچ رکھنا،'میں ہوتا تو چھ بلے بازوں اور پانچ فل ٹائم باوٴلرز کے ساتھ میدان میں اترتا۔ آپ دو پارٹ ٹائم باوٴلرز کے ساتھ جیتنے کی توقع نہیں کر سکتے، اس کے علاوہ ہماری بلے بازی میں اتنی مستقل مزاجی نہیں کہ وہ ہمیشہ ہمیں مشکل صورتحال سے باہر نکال لے'۔

اظہر محمود کے خیال میں لیگ سپنر یاسر شاہ ورلڈ کپ کے اہم کھلاڑی ثابت ہو سکتے ہیں اور ان سے باوٴلنگ شروع کرانا ایک منطقی اور اچھا آپشن ہو گا۔بڑی باوٴنڈریاں اور خشک پچیں ، بالخصوص آسٹریلیا میں ، یاسر کیلئے معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔ وہ میگا ایونٹ کے بہترین باوٴلر بن کر ابھر سکتے ہیں'۔جب ان سے پوچھا گیا کہ محمد حفیظ کے زخمی ہونے کے بعد آیا سعید اجمل کو کھلانے کا چانس لیا جا سکتا ہے، تو انہوں نے کہا' اگر اجمل تیارہوں تو میں انہیں ٹیم میں ضرور رکھتا۔ایک ایسا کھلاڑی جس کے پاس انتہائی وسیع تجربہ ہو، اسے اپنی میچ فٹنس ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ کیا وہ اپنی بحالی کے عرصہ میں مسلسل باوٴلنگ نہیں کرتے رہے تھے؟۔