کارگل آپریشن کے محرک اور منصوبہ ساز جنرل مشرف تھے ،جنرل محمود اور جنرل جاوید حسن کی انہیں حمایت حاصل تھی ،ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن جنرل توقیر ضیاء بھی منصوبہ سازی میں شریک تھے ، اس وقت کی سیاسی قیادت کو ان منصوبوں کی کچھ خبر نہ تھی، جنرل مشرف کا دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سارے آپریشن سے باخبر رکھا گیا، جنرل اشفاق پرویز کیانی جو کارگل آپریشن کے مخالف تھے انکو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ، سیاسی قیادت کو بریفنگ میں جنرل مشرف اور تمام جرنیل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کارگل آپریشن میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے، مشرف ٹیلی فون پر حساس معاملات پر گفتگو کرتے تھے جسے بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے ٹیپ کرلیا ، ہندوستان کو اس سے یہ ثابت کرنے کا موقع ملا کہ کارگل میں پاک فوج ملوث تھی

سابق وفاقی وزیر اور بزرگ مسلم لیگی رہنما لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالمجید ملک کے بطور جرنیل اور سیاستدان اپنی یاداشتوں پر مبنی حالیہ شائع ہونیوالی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ میں انکشافات

منگل 3 مارچ 2015 23:21

کارگل آپریشن کے محرک اور منصوبہ ساز جنرل مشرف تھے ،جنرل محمود اور جنرل ..

چکوال ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔03مارچ۔2015ء ) سابق وفاقی وزیر اور بزرگ مسلم لیگی رہنما لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالمجید ملک نے انکشاف کیا ہے کہ کارگل آپریشن کے محرک اور منصوبہ ساز جنرل پرویز مشرف تھے ، انہیں جنرل محمود اور جنرل جاوید حسن کی حمایت حاصل تھی، اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشن جنرل توقیر ضیاء بھی اس منصوبہ سازی میں شریک تھے تاہم اس وقت کی سیاسی قیادت کو ان منصوبوں کی کچھ خبر نہ تھی، جنرل مشرف یہی دعویٰ کرتے رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو سارے آپریشن سے باخبر رکھا گیا، جنرل اشفاق پرویز کیانی جو کارگل آپریشن کے مخالف تھے انکو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا ، سیاسی قیادت کو بریفنگ میں جنرل مشرف اور تمام جرنیل یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کارگل آپریشن میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے، مشرف ٹیلی فون پر حساس معاملات پر گفتگو کرتے تھے جسے بھارتی انٹیلی جنس اداروں نے ٹیپ کرلیا ، ہندوستان کو اس سے یہ ثابت کرنے کا موقع ملا کہ کارگل میں پاک فوج ملوث تھی ۔

(جاری ہے)

بطور جرنیل اور سیاستدان اپنی یاداشتوں پر مبنی حالیہ شائع ہونیوالی کتاب ”ہم بھی وہاں موجود تھے“ میں جنرل عبدالمجید ملک نے کارگل آپریشن کے عنوان سے بھی ایک باب تحریر کیا ہے ، اپنی کتاب میں نواز شریف اور واجپائی کے درمیان بہتر تعلقات اور بعد ازاں کارگل کا واقعہ ہو جانے بارے تفصیلات بیان کرتے ہوئے جنرل مجید ملک نے بتایا کہ جب بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی فروری 1998 میں لاہور آئے تو پاک بھارت تعلقات کا یہ ایک خوشگوار موڑ تھا اور وزیراعظم نواز شریف وزیراعظم بھارت کے دورہ پاکستان سے بڑے مطمئن تھے اور یہ دورہ بے شک پورے خطے میں ایک اہم ترین اور کامیاب پیش رفت تھی جس کا کریڈیٹ میاں نواز شریف کو جاتا تھا مگر اس دورہ سے افواج پاکستان میں بے چینی کے اثرات نمایاں تھے۔

جنرل مجید ملک بتاتے ہیں کہ 1998-99 کے موسم سرما کے آغاز پر بھارت نے کارگل کی چوٹیاں خالی کر دیں تو اس وقت ڈی ایچ کیو میں یہ پلان تیار کیا گیا کہ ان چوٹیوں پر قبضہ کر لیا جائے تو بھارت کی سامان پہنچانے کی لائن کو کاٹا جا سکتا ہے اور ان کارگل کی چوٹیوں پرقابض ہونے سے بھارت پر کشمیر کے حل کیلئے د باؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ کارگل کی چوٹیوں پر قبضے کے بعد افواج پاکستان میڈیا میں شور و غل برپا ہونے پر یہ تاثر دیتے رہے کہ کارگل پر کشمیری مجاہدین نے قبضہ کیا ہے اور پھر بھارت نے میڈیا پر بے پناہ پراپیگینڈا کے بعد جوابی حملہ شروع کیا تو پاکستان کی افواج گھیرے میں آگئیں ، جنرل پرویز مشرف اس وقت دعویٰ کرتے رہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کو اس سارے آپریشن سے باخبر رکھا گیا جبکہ وزیراعظم نواز شریف نے کارگل کے بارے میں جب17مئی 1999کو جب پہلی بریفنگ ہوئی تو وزیراعظم نے بتایا کہ مجھے اس دن معلوم ہوا اور اس سارے آپریشن سے بالکل لاعلم تھے۔

جنرل مجید ملک مزید لکھتے ہیں کہ جنرل اشفاق پرویز کیانی جو اس وقت 12ڈویژن کی کمان کر رہے تھے ان کو بھی اعتماد میں نہیں لیا گیا کیونکہ اشفاق پرویز کیانی کارگل آپریشن کے سخت مخالف تھے۔17مئی کی اس بریفنگ میں افواج پاکستان نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا کہ اگر جنگ پھیل گئی تو ہمارے اتنے وسائل نہیں کہ ہم اس جنگ کے متحمل ہو سکیں۔ جنرل مجید ملک بتاتے ہیں کہ جب میری باری آئی تو میں نے واضح طور پر کہا کہ یہ آپریشن پاکستان کیلئے دیرپا فوائد کا حامل نہیں اور یہ پاکستان کیلئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے جبکہ جنرل پرویز مشرف اس وقت بڑے پرجوش تھے اور اپنی پوزیشن مضبوط ہونے کے بارے میں بریفنگ دینا شروع کی۔

اس میٹنگ میں جنرل مشرف اور تمام جنرنیلوں نے مجموعی طور پر یہی کہا کہ کارگل آپریشن میں ہماری پوزیشن مضبوط ہے ، جنرل مجید ملک مزید بتاتے ہیں کہ کارگل کے حوالے سے دوسری بریفنگ میں بھی میرا موقف کارگل آپریشن کے بارے میں بالکل واضح تھا کہ یہ پاکستان کے حق میں نہیں اور جنرل مشرف نے چین سے ٹیلی فون کر کے جنرل عزیز سے پوچھا تھا کہ بریفنگ پر کیا صورتحال ہے تو جنرل عزیز نے مشرف کو بتایا کہ جنرل مجید ملک مطمئن نہیں ہیں اور جنرل عزیز کے یہ الفاظ بھارت کی ایجنسیوں نے ٹیپ کر لیا تھا جسے بعد ازاں بڑا نشر کیا گیا اور صدر مشرف کا اس طرح ٹیلی فون پر حساس معاملات پر بات کرنا ایک سنگین اور ناقابل معافی جرم تھا اور ہندوستان کو یہ ثابت کرنے کا موقع مل گیا کہ کارگل کے معاملے میں پاک فوج ملوث ہے۔