پاکستان افغانستان میں مصالحت کی کوشش میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے ، افغان حکومت اور طالبان میں مذاکرات اس وقت کامیاب ہوں گے جب حقانی اور کوئٹہ شوریٰ بھی ان میں شامل ہو، مذاکرات کاسلسلہ چل نکلا ہے، کوشش ہے تمام فریقین مذاکرت کی میز پر آئیں ،کسی ایک گروپ کو باہر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا،وزیر دفاع خواجہ آصف کا برطانوی نشریاتی ادار ے کو انٹرویو ،پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کی نئی کوشش میں مصروف ہے،اپنی نوعیت کے یہ پہلے مذاکرات رواں ماہ کسی وقت متوقع ،4 مقامات پر غور ہو رہا ہے ، اسلام آباد ، کابل کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور چین بھی شامل ہیں ، رپورٹ

جمعرات 5 مارچ 2015 20:27

پاکستان افغانستان میں مصالحت کی کوشش میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ..

اسلام آباد/لندن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔5 مارچ۔2015ء) وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ پاکستان افغانستان میں مصالحت کی کوشش میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے،مذاکرات تب کامیاب ہوں گے جب ان میں حقانی اور کوئٹہ شوریٰ سمیت طالبان کے تمام دھڑے بھی شامل ہوں۔ جمعرات کو برطانوی نشریاتی ادارے سے گفتگو میں خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان افغانستان میں مصالحت کی کوشش میں اپنا مثبت کردار ادا کر رہا ہے اور وہ قیام امن کے لئے کوششیں جاری رکھے گا ، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کاسلسلہ چل نکلا ہے اور کوشش ہے تمام فریقین مذاکرت کی میز پر آئیں ،اس نازک معاملے میں قیاس آرائی سے احتیاط کی ضرورت ہے ۔

انہوں نے کہاکہ یہ ممکنہ مذاکرات اسی وقت کامیاب ہوں گے جب تمام طالبان دھڑے یعنی حقانی نیٹ ورک اور کوئٹہ شوریٰ اس میں شامل ہوں۔

(جاری ہے)

’کسی ایک کو باہر رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ پاکستان اس ساری کوشش میں جس کا مقصد امن ہے اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس میں ہمارا اگر کہیں اثر ہے تو ہم اسے مثبت طریقے سے ضرور استعمال کریں گے۔اس سوال پر کہ کب تک بات چیت شروع ہوسکتی ہے، انھوں نے اس بات کی تصدیق کی رابطوں کا سلسلہ چل نکلا ہے تاہم ’یہ ایک نازک معاملہ ہے تو میں اس میں قیاس آرائی کرنے سے احتیاط کروں گا۔

کوشش یہی کی جا رہی ہے کہ سب مذاکراتی میز پر آئیں۔حکومتِ افغانستان اور پاکستان تو اس کے لیے آمادہ ہیں لیکن طالبان کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔حکومتِ افغانستان اور پاکستان تو اس کے لیے آمادہ ہیں لیکن طالبان کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں۔وہ کسی ایسی بات چیت سے انکار آخر کیوں کر رہے ہیں؟ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق طالبان کو ابھی اپنے رینکس میں لوگوں کو اعتماد میں لینا ہے۔

انہیں اس بابت شدید مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے۔رپورٹ کے مطابق ان مذاکرات میں چین بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔پاک افغان حکام کا ماننا ہے کہ طالبان نے بھی اس بات کو مان لیا ہے کہ وہ اب کابل میں حکومت گرانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کامیاب افغان صدارتی انتخابات اور کسی بڑے علاقے کے غیرملکی فوجی انخلا کے باوجود طالبان کے ہاتھ نہ جانا اس کو اس کے ثبوت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

حقانی نیٹ ورک پر پابندی کے حکومت پاکستان کے اعلان کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ پاکستان نے کبھی اس گروپ کو تسلیم نہیں کیا تو پابندی کی بات نہیں بنتی۔ ’ہم تو اس گروپ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں کہاگیا کہ پاکستان افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع کرانے کی ایک نئی کوشش میں مصروف ہے۔اپنی نوعیت کے یہ پہلے مذاکرات رواں ماہ کسی وقت متوقع ہیں اور ان کے لیے چار مقامات پر غور ہو رہا ہے جس میں اسلام آباد اور کابل کے علاوہ متحدہ عرب امارات اور چین شامل ہیں۔