دوبئی میں حوا کی بیٹی کی قیمت صرف 5000 درہم

جمعہ 6 مارچ 2015 15:26

دوبئی میں حوا کی بیٹی کی قیمت صرف 5000 درہم

دوبئی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6مارچ2015ء) مبینہ طور پر دو بے روزگار بنگلادیشی نوجوانوں نے 5 ہزار درہم میں اپنی ہی ہم وطن لڑکی کوزبردستی فروخت کرنے کی کوشش کی۔ دوبئی کرمنل کورٹ میں مقدمہ جاری ہے۔ تفصیلات کے مطابق ظلم کا شکار 26 سالہ لڑکی(ایم کے ) بنگلا دیش میں ریڈی میڈ گارمنٹس کے سٹور پر کام کرتی تھی۔اخراجات پورے نہ ہونے پر اس نے خلیجی ممالک میں قسمت آزمائی کا سوچا۔

اس نے ایک ریکورٹمنٹ ایجنسی میں اپنی رجسٹریشن کرائی تو ایجنسی نے ویزے کی مد میں اس سے 50 ہزار ٹکا وصول کیے اور اسے گھریلو ملازمہ کی نوکری کا کہہ کر دوبئی بھیج دیا۔ایک ماہ بعد ہی اس کے اور خاتون خانہ میں اختلاف ہونے کے باعث اسے نوکری سے فارغ کرکے ایجنسی کے عجمان دفتر میں بھیج دیا گیا۔

(جاری ہے)

دفتر میں وہ دو دن رہی کہ ایک اور گھریلو ملازمہ نجمہ کو بھی نوکری سے فارغ کر کے دفتر واپس بھیج دیا گیا۔

نجمہ نے اس سے کہا کہ اس کا شوہراسماعیل اسے اچھی نوکری دلا دے گا اس کےساتھ بھاگ چلو۔دونوں نے ٹیکسی پکڑی اور اسماعیل کے گھر چل پڑے ۔اسماعیل کے گھر پر ایم کے دو دن رہی، اس کے بعد اسماعیل اسے ایک اور ہم وطن عورت نور کے پاس لے گیا اور اس سے 2500 درہم لے لیے۔ نور کے فلیٹ میں ایم کے ایک دن رہی تو وہاں پر ایک شخص فرید آیا جو نور کو 2500 درہم دے کر ایم کے کو اپنے ساتھ لے گیا۔

نور نے اسے بتایا تھا کہ فرید اسے نوکری دلائے گا۔ فرید اسے دوبئی کے فلیٹ میں لے گیا اور اسے بتایا کہ اس کے لیے ملازمت دیکھ لی ہے ۔ اسے ایک سیلون میں مساج کرنے والی کی ملازمت کرنی پڑےگی جبکہ اس کام کی تنخواہ ایک ہزار درہم ہو گی۔یہ سیلون ایک عورت صوفیہ چلاتی تھی، سیلون جا کر ایم کے کو پتہ چلا کہ سیلون کے گاہک سارے مرد تھے۔اس پر اس کا صوفیہ سے جھگڑا ہوا تو اسے بتایا گیا کہ اس کے لیے بس یہی نوکری ہے اسے مردوں کا مساج کرنا پڑے گا، اس پر وہ یہ نوکری کرنے پر رضا مند ہو گئی ۔

سیلون میں جو پہلا گاہک آیا اس نے ایم کے کو مساج کے ساتھ اور جسم فروشی کا بھی کہا ، جسے ایم کے نے منع کیا۔ اس پر صوفیہ نے اسے مارا پیٹا اور کہا کہ فرید نے اسے کہا ہے کہ یہ لڑکی سارے کام کرے گی۔پانچ دن بعد فرید واپس آیا تو ایم کے نے اسے ساری صورت حال بتائی۔فریداسے ایک فلیٹ میں لے گیا اور اسے 2500 درہم میں ایک اور شخص (ایم ایس ) کے حوالےکر دیا۔

ایم ایس کے فلیٹ میں آکر ایم کے کو پتہ چلا کہ یہ جسم فروشی کا اڈہ ہے۔یہاں پہلے ہی دو عورتیں یہ دھندہ کرتی تھیں۔ ایم کے نے ایم ایس کو بتایا کہ وہ جسم فروشی نہیں کرے گی، جس پر اسے مارا پیٹا گیا۔ایک دن اس نے کھڑکی کےذریعے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی مگر ایم ایس نے اسے پکڑ لیا اور ایک ہم وطن ایم ایم کے حوالے کر دیا۔ایم ایس اسے ایم ایم کے ذریعے ایک شخص کو فروخت کر رہا تھا جو کار میں اسے لینے آنے والا تھا۔

کار میں پاکستانی ڈرئیور کے ساتھ دو آدمی اور بھی تھے۔ایم ایم اور ایم کے جیسےہی کار میں سوار ہوئے ایک شخص اتر کر چلا گیا اور واپس آ کر ایم ایم کو رقم دے دی، اتنے میں ہی پولیس نے کار پر چھاپا مار پاکستانی ڈرائیور اور ایم ایم کو گرفتار کر لیا جبکہ دو بنگلا دیشی فرار ہو گئے۔ ایم کے نے پولیس کو ایم ایس کے جسم فروشی کے اڈے کے بارے میں بتا دیا۔

پچھلے سال 22 دسمبر کو پولیس کو خبر ملی تھی کہ دوبنگلا دیشی ہم وطن عورت کو 5 ہزار ررہم میں فروخت کریں گے۔ پولیس نے اپنے مخبر چھوڑ دئیے جنہوں نے گاہک بن کر ان سے رابطہ کیا۔پولیس نے ہی اپنے مخبر کو 5 ہزار درہم فراہم کیے تھے ۔دو دن میں ہی لڑکی کا کر سودا کرتے ہوئے پولیس نے ایم ایم ، پاکستانی ڈرائیور اورلڑکی کو حراست میں لے لیا۔ ایم ایم نے کہا کہ وہ تو اس آدمی سے رقم ادھار لے رہا تھا، اس کا لڑکی سےکوئی تعلق نہیں۔

پاکستان ڈرائیور نے کہا کہ اس کا نہ لڑکی سے کوئی تعلق ہے اور کسی شخص سے، وہ تو گاڑی چلا رہا تھا کہ ان لوگوں نے انہیں ہوٹل تک چلنے کا کہا تھا۔پولیس کی تحقیقات سے پتہ چلا کہ پاکستانی ڈرائیور کا لڑکی یا ان بنگلا دیشی لڑکوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پولیس نے 23 سالہ ایم ایم اور 26 سالہ ایم ایس پر انسانی سمگلنگ، عورت کو فروخت کرنے اور جسم فروشی کا اڈہ چلانے کا مقدمہ درج کر لیاہے۔مقدمے کی باقی کاروائی 8 مارچ ہو گی۔