یورپی پاسپورٹوں کی کھلے عام خرید و فروخت

منگل 10 مارچ 2015 13:00

یورپی پاسپورٹوں کی کھلے عام خرید و فروخت

پراگ(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔10مارچ۔2015ء)یورپی ملک چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کی پولیس کو ایک نئے مسئلے کا سامنا ہے۔ اسمگلر انتہائی منظم طریقے سے غریب یورپی باشندوں کے پاسپورٹ خریدتے ہیں اور انہیں غیر ملکیوں کو یورپ تک لانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔چیک جمہوریہ میں اسمگلروں کا یہ نیا طریقہ پولیس کے لیے درد سر بنا ہوا ہے کیونکہ انہیں ایسے نیٹ ورکس کو پکڑنے کے لیے دن رات محنت کرنا پڑ رہی ہے اور مکمل معلومات ان کے پاس پھر بھی نہیں ہیں۔

شناختی دستاویزات کے شعبے کے سربراہ ہوبرٹ لانگ کہتے ہیں، ”میرے خیال سے یہ کام اس طرح ہو رہا ہے، بعض غریب لوگ اپنے پاسپورٹ بیچ دیتے ہیں۔ پھر ان پاسپورٹس کے چوری یا گم ہو جانے کی اطلاع دے دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان لوگوں کے پاسپورٹس بھی استعمال کیے جاتے ہیں، جو وفات پا جاتے ہیں اور حکومت ان کے پاسپورٹس سے متعلق لاعلم ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

سب سے زیادہ خطرناک وہ پاسپورٹس ہوتے ہیں، جن کے بارے میں نہ تو گشمدگی اور نہ ہی چوری ہونے کی کوئی رپورٹ ہوتی ہے۔

اس طرح کے پاسپورٹس کے نمبر شینگن انفارمیشن سسٹم میں ظاہر نہیں ہوتے اور یورپ میں داخل ہونے والوں کو کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔“پولیس کے مطابق اس دھندے میں منظم گروہ ملوث ہیں، جو یورپ بھر میں ایسے غریب افراد کو ڈھونڈتے ہیں، جو اپنی سفری دستاویزات بیچنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

بعد ازاں یہ اسمگلر بھاری قیمت کے عوض یہ دستاویزات بحران زدہ ممالک میں بیچ دیتے ہیں۔

ہوبرٹ لانگ بتاتے ہیں، ”تارکین وطن کو ایسی دستاویزات کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے ذریعے وہ کسی ہوائی جہاز پر سوار ہو سکیں اور یورپ کے کسی ملک تک پہنچ سکیں۔ سکیورٹی کے حوالے سے چیک جمہوریہ کے پاسپورٹس دنیا کے بہترین پاسپورٹس میں شمار ہوتے ہیں لیکن اس کے باجود ان کا غلط استعمال ہوتا ہے۔“چیک پولیس کے مطابق اسمگلر انتہائی عمدگی کے ساتھ پاسپورٹ کے پہلے صفحے پر موجود تفصیلات تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

چیک پولیس کے پاس ایسے ایک سو کیس درج ہوئے ہیں، جن کے مطابق چوری شدہ پاسپورٹس کو ملک میں آنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ حقیقی اعداد و شمار سے متعلق خود پولیس بھی لاعلم ہے۔شناختی دستاویزات کے شعبے کے سربراہ ہوبرٹ لانگ کہتے ہیں کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ان افراد کو بھی پکڑا جا رہا ہے، جو اپنی سفری دستاویزات بیچتے ہیں۔ تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ایسا کرنے والے افراد کی آمدنی کم ہے لیکن اس معاملے میں سب سے مشکل کام اس بات کو ثابت کرنا ہے کہ پاسپورٹ واقعی بیچا گیا تھا۔

لیکن اگر کوئی چند ہی برسوں میں تین سے چار مرتبہ پاسپورٹ گم ہو جانے کی رپورٹ درج کروائے تو شک پختہ ہو جاتا ہے۔ہوبرٹ لانگ کہتے ہیں کہ وہ ایسی قانونی تبدیلیاں لانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جن کے پاسپورٹ بار بار گم ہو جائیں، انہیں سخت سزا دی جا سکے لیکن اس کے لیے ابھی انہیں طویل فاصلہ طے کرنا ہو گا۔ پولیس کے مطابق تب تک اس ’تجارت‘ کو روکنا بہت مشکل ہے۔