پیر طریقت ،رہبر شریعت حضرت صاحبزادہ پیر سید عبداللہ شاہ المعروف سید بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ ’آپ کا سالانہ عرس مبارک13تا15مارچ 2015بروزجمعتہ المبارک ،ہفتہ ،اتوار کو آستانہ عالیہ سدرہ شریف” ڈیرہ اسماعیل خان “ میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا۔.

منگل 10 مارچ 2015 17:21

تحریر :۔ صاحبزادہ پیر سید فدا حسین شاہ زنجانی ،چےئرمین پاکستان مشائخ و علماء کونسل ضلع سیالکوٹنبی رحمت حضرت محمد مصطفیﷺ کی محبت جوہر ایمان ہے اور اسی طرح حضرات اہل بیت کی محبت اور عقیدت بھی ایمان کا تقاضا ہے ۔ہر چند کہ انساب و خاندان کی تقسیم کا بنیادی مقصد ،امتیاز اور تعارف ہے لیکن اس ضمن میں خانوادہ رسولﷺ کو خاص شرف حاصل ہے ۔آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت نے مجھے قریش کے بہترین خاندان میں معبوث فرمایا ،قیامت کے روزتمام نسب منقطع ہو جائیں گے سوائے میرے نسب کے۔

آپﷺ کے نسب پاک کا فیضان قیامت تک جاری رہے گا۔قرآن پا کی آیت تطہیر اور آیت مودت اہل بیت کی شان وعظمت کی روشن دلیل ہے۔
حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ تم”میرے اہل بیت کو اپنے نزدیک وہی حیثیت دو جو جسم میں سر اور سرمیں دوآنکھوں کو ہوتی ہے“
گویا اہلبیت کی محبت جہاں جزوایمان ہے وہاں ذہنی صلاحیتوں کو صراط مستقیم پر چلانے کا پیمانہ بھی ہے اور اہل بیت کی شان میں گستاخی اورانہیں ایذاد ینا اپنے ایمان کو زائل کرنے کے مترادف ہے ،فرمان نبویﷺ ہے کہ جس نے میرے اہل بیت اور قریب ترین رشتہ داروں کو ایذاپہنچائی اس نے یقینامجھے ایزاپہنچائی۔

(جاری ہے)


کمزور چیونٹی نے خواہش کی کہ درکعبہ تک پہنچ جائے تو اس نے کبوتر کے پاؤں کو ہاتھ سے تھاما اور اچانک وہاں پہنچ گئی۔حدیث نبویﷺ ہے کہ میرے اہل بیت تمہارے اندر کشتی نوح کی مانند ہیں جوکوئی اس پرسوار ہوگیا اس کی نجات پائی اور جوکوئی اس سے پیچھے رہ گیا غرق ہوگیا۔لہذا ان کمالات کو ان کی تمام شاخوں سمیت جو مختلف ولایات کا مرکز ہیں اسی خاندان میں جاری کیا گیا ہے اور اسی چشمہ فیض کو برقرار رکھا گیا ہے ،یہی اہلبیت اولیاء امت کے روحانی سلسلوں کا مرجع ہیں ۔

انہی اولیاء امت میں سے ایک نواسہ رسول ،جگر گوشہ بتول حضرت صاحبزادہ پیر سید عبداللہ المعروف سید بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ ہیں جو 1881ء بروزسوموار بوقت 2بجے پیدا ہوئے۔آپ بچپن سے ہی خوش اخلاق اور حسین و جمیل تھے۔ابتدائی تعلیم آپ نے اپنے والد گرامی سے حاصل کی، فقہ حدیث اورتفسیرآپ نے وقت کے اکابر علماء سے حاصل کی ۔آپ سیرت کے ساتھ ساتھ صورت کے بھی بادشاہ تھے ،جو بھی ایک نظر آپ کو دیکھتا آپ کا ہی ہوکر رہ جاتا۔

آپ فہم و فراست،ریاضت وعبادت ،زاہد ومجاہدہ ،تقویٰ و طہارت اور صبر و قناعت کے پیکر مجسم تھے۔آپ ہمیشہ چہرہ مبارک کو چھپائے رکھتے اور وقت کا بیشتر حصہ عبادت میں گزارتے ۔اکثر گھر میں رہتے ۔آپ شرم و حیا کے پیکرتھے اور غیرمحرم پر کبھی بھی آپ کی نظر نہ پڑی۔تحریک پاکستان میں آپ نے بڑا مجاہدانہ کردار ادا کیا اور پاکستان مسلم لیگ کی بھرپور حمایت کی ۔

آغا سیدلال بادشاہ بخاری جو رشتے میں آپ کے برادر نسبتی تھے ،انہیں آپ نے حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی حمایت اور مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا۔یہی وجہ تھی کہ جب سید لال بادشاہ  نے حضرت قائد اعظم  کے دورہ پشاور کی دعوت دی توآپ نے تمام مخالفتوں کے باوجود قائداعظم کا شاندار استقبال کیا اور ان کی میزبانی کی ۔اس دورے کے دوران حضرت قائد اعظم  آغا سید لال بادشاہ کے ہمراہ صاحبزادہ پیر سید عبداللہ المعروف سید بادشاہ  کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کروائی۔

اللہ بخش یوسفی نے اپنی کتاب”سیاسیات سرحد کے ارتقائی منازل“ میں لکھا ہے کہ قائداعظم کا دوری سرحد آپ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔آپ کی پوری زندگی قرآن و سنت کے فروغ میں بسر ہوئی اور جوبھی سوالی آپ کے در پر حاضری دیتا کبھی بھی خالی ہاتھ واپس نا لوٹتا ۔آپ نے ایک جہاں کو قرآن و سنتﷺ سے روشناس کروایا اور لوگوں کا ٹوٹا ہوا رشتہ قرآن و سنت سے جوڑا۔

15اپریل 1971ء کو آپ لاکھوں افراد کو قرآن و سنت کا پیکر بنا کر اس جہاں سے رخصت ہوئے ۔آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان بمقام سدرہ شریف دفن کیا جائے ۔یہ گاؤں ڈیرہ اسماعیل خان سے30کلومیٹر کے فاصلے پر بنوں روڈ کے قریب واقع ہے ۔بعض وجوہات کی بناپر آپ کو بطور امانت یکہ توت پشاوردفن کیا گیا۔ 10جولائی1976بعد نماز عصر قبرکشائی کیلئے خانوادہ رزاقیہ کے چشم و چراغ اپنے خدام کے ساتھ قبر کشائی کے بعد جب تابوت نکالا گیا تو بلکل تروتازہ اور اصل حالت میں تھا اور جو گلاب کے پھول آپ کے جسد خاکی پر تھے وہ بھی تروتازہ تھے۔

کیا کسی نعت گو شاعر نے خوب لکھا ہے کہ ”زمین میلی نہیں ہوتی ذمن میلا نہیں ہوتا محمدﷺ کے غلاموں کا کفن میلا نہیں ہوتا“ایک دن اور ایک رات آپ کا تابوت زیارت کیلئے رکھا گیا اور ہر خاص وعام نے آپ کی زیارت کی ۔ماننے والے رب ذوالجلال کی عطا پر حمد و ثنا ء بیان کرتے رہے اور نہ ماننے والے انگشت بدانداں دریائے حیرت میں غرق دیکھتے رہے جیسے انہیں اپنی بصارت پر یقین نہ آرہا ہو ،مگر اللہ رب العزت کا اٹل قانون اورفیصلہ ہے کہ وہ اپنے محبوب بندوں کی خود خفاظت فرماتا ہے۔

اور اس انداز سے فرماتا ہے کہ انکلی زندگی اور موت کا ہر لمحہ اس کی نظر میں ہوتا ہے اور محفوظ ہوتا ہے۔یہ ہستیاں دراصل ایک گھر سے دوسرے گھر چلی جاتی ہیں اور مٹی کو مجال نہیں کہ ان کے جسم اطہر کو چھو سکے۔اس لئے جو رزق رب ذوالجلال انہیں عطا کرتا ہے اس پر وہ خوشیاں مناتے ہیں ۔یہ کوئی عرصہ درازکی بات نہیں اور نہ داستانوں میں سے کوئی داستان ہے ۔

یہ واقعہ 1976کا ہے جس کے عینی شاہد آج بھی موجود ہیں اور بتاتے ہیں کہ تابوت پر بادل کے ایک ٹکڑے نے سایہ کررکھا تھا۔11جولائی1976ء کو اس تابوت کو زرگر آباد بیرون یکہ توت پشاور سے ایک ویگن کے ذریعے سدرہ شریف لایا گیا۔سدرہ گاؤں سڑک سے 5میل دور بے آب و گیاہ بنجر زمین جو آپ کی آمد سے زائرین کا مرکز بن گئی۔ڈیرہ اسماعیل خان اور دورو نزدیک سے لوگ آپ کی زیارت کیلئے جمع ہوگئے اور یوں آپ کی آمد سے اس ویرانے میں بہار آگئی اور سدرہ گاؤں سدرہ شریف بن گیا۔

آپ کے جانشین نے آپ کی قبر مبارک پر ایک خوبصورت مزار تعمیر کروایا ،مزار شریف پر ایک خوبصورت پوکشش منفرد طرزتعمیر کا حامل رقبہ اپنی انفرادیت میں” سیدبادشاہ“کی طرح گنبدوں کا بادشاہ کہلانے کا مستحق ہے جو سیدبادشاہ کی عظمت وبادشاہت کا اعلان شب و روز کرتا نظر آتا ہے ۔مزار کے ساتھ ایک وسیع و عریض خوبصورت مسجد ہے ۔اور مسجد سے ملحقہ ایک درسگاہ سیدالجامعہ کے نام سے منسوب موجودہے جہاں طلباء قرآن حکیم کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔

دریائے سندھ کے کنارے کوہ سلیمان کے درہ پیزوکی کی یہ گمنام بستی ”سدرہ شریف“ آج مسلمانان برصغیر کی عظیم زیارت کا درجہ اختیار کر چکی ہے اور ہر سال آپ کا عرس مبارک بڑی دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور پاکستان کے علاوہ بیرون ممالک سے بھی مریدین و زائرین اور علماء ومشائخ ،قرآء و نعت خوانان کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے ۔امسال بھی آپ کا سالانہ عرس مبارک زیر صدارت سجادہ نشین نقیب الاشراف پیر سید محمد انور شاہ الگیلانی القادری13,14,15مارچ2015بروزجمعتہ المبارک ،ہفتہ ،اتوار کو آستانہ عالیہ غوثیہ قادریہ رزاقیہ سدرہ شریف” ڈیرہ اسماعیل خان “ میں نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :