20 سال پہلے 17 سال کا تھا مگر نہیں مرا۔ امید نے زندگی دی

جمعرات 12 مارچ 2015 12:43

20 سال پہلے 17 سال کا تھا مگر نہیں مرا۔ امید نے زندگی دی

متحدہ عرب امارات(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔12مارچ2015ء) خالد کا تعلق متحدہ عرب امارات سے ہے۔خالد بچہ ہی تھا کہ اس کے والدین نے اسے بتایا کہ اس کا کوئی مستقبل نہیں، 17 سال کی عمر میں وہ مر جائے گا اور وجہ ہے تھیلیمسیا کا مرض۔اس کے خاندان میں ہر کوئی اس کی بیماری کے بارے میں جانتا تھا۔ تمام خاندان نے اس کے والدین کو کہا کہ اسے سکول بھیجنے کا کوئی فائدہ نہیں، 17 سال کا ہو کر وہ مر جائے گا، بہتر ہے وہ کھیلے اور مزے کرے۔

بچپن ہی سے موت کا لفظ اس کا ساتھی بن گیا۔بچپن ہی میں اسے بتا دیا گیا کہ نہ تم یونیورسٹی جا سکو کے، نہ تمہاری شادی ہو گی اور نہ ہی بچے، تمہارا کوئی مستقبل نہیں۔اس نے سکول چھوڑ دیا اور اپنی موت کا انتظار کرنے لگا۔ اس کے ایک کزن کو بھی تھیلیسیمیا کا مرض تھا۔

(جاری ہے)

دونوں دوست بن گئے اور 17 کا ہونے کا انتظار کرنے لگے۔ اس عرصے میں دونوں نےتنگ آ کراپنا خیال رکھنا اور دوائیاں لینا بھی چھوڑ دیا۔

17 سال کی عمر میں خالد کا کزن مرگیا اور وہ اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔17 سال کا ہونے کے بعد وہ 18 سال کا بھی ہو گیا مگر مرا نہیں۔اس کے بعد دو سال مزید گذرے تو اسے احساس ہوا کہ وہ نہیں مرے گا۔ اس دن اسے پتہ چلا کہ اگر وہ اپنا خیال رکھے گا اور دوائیاں وقت پر لے گا تو زندہ رہے گا۔ اس کے بعد خالد نے اپنی زندگی بدلنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے تمام دوائیاں وقت پر لیں، اپنی غذا کاخیال رکھا اور آج اس کی عمر 37 سال ہے۔

خالد میں اور عام لوگوں میں بس یہی فرق ہے کہ اسے 3 ہفتوں بعد اپنا خون تبدیل کرانا پڑتا ہے۔ خالد کا کہنا ہے کہ والدین کو ابتدائی عمر میں بچے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، انہیں بچوں کی امید کو زندہ رکھنا چاہیے۔خالد کا کہنا ہے کہ بچوں کی زندگی میں ان کے گھر والوں کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔