پاکستان کا ایران مخالف اتحاد میں شامل نہ ہو نے کا فیصلہ،

سعودی فرمانرو کی جانب سے وزیراعظم کو مدعوکرنا ریاض کی جانب سے بدلتی صورتحال میں سفارتی مشاورت کے عمل کا حصہ تھی،حکومتی عہدیدار

اتوار 15 مارچ 2015 13:30

پاکستان کا ایران مخالف اتحاد میں شامل نہ ہو نے کا فیصلہ،

اسلام آباد ( اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار15مارچ ۔2015ء ) حکومت نے مشرق وسطیٰ میں ابھرتی صورتحال میں کسی فریق کا ساتھ نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے کم از کم فی الحال تو اس کا یہی ارادہ ہے۔ایک سنیئر حکومتی عہدیدار نے میڈیا کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بتا یا کہ پاکستان ایران مخالف اتحاد میں شمولیت میں جلدی نہیں کرے گا"۔وزیراعظم نواز شریف نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب کا دورہ کیا تھا جسے حکومت نے سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز کی جانب سے خصوصی دعوت قرار دیا تھا۔

وزیراعظم کو مدعو کیا جانا ریاض کی جانب سے بدلتی صورتحال میں سفارتی مشاورت کے عمل کا حصہ تھی، گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کئی مسلم رہنماؤں نے سعودی فرمانروا سے ملاقاتیں کی ہیں جن میں فلسطین، مصر اور ترکی کے صدور، اردن کے بادشاہ، قطر اور کویت کے امیر جبکہ یو اے ای کے رہنماء شامل ہیں۔

(جاری ہے)

حکومتی عہدیدار جس دورے کے بعد میں بریف کیا گیا، کا کہنا تھا کہ شاہ سلمان نے نواز شریف سے ریاض میں خطے میں تہران کے بڑھتے اثررسوک پر سعودی تحفظات پر بات کی۔

عہدیدار نے مزید کہا کہ خودساختہ دولت اسلامیہ کا خطرہ بھی بات چیت کا حصہ بنا۔نواز شریف نے اپنے دورے کے دوران سعودی عرب سے تعلقات مضبوط کرنے پر اتفاق کیا اور یہ عزم بھی کیا کہ سیکیورٹی اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کو بڑھایا جائے گا۔عہدیدار کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے اس کے بعد حالات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر نقصانات اور فوائد کو جانچا اور غیرجانبدار رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے امت کو " یکجا" کرنے کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔

عہدیدار نے کہا " ہم مسلم ممالک کے تنازعات میں ملوث ہونے کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے"۔ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت کیا اقدامات کرتی ہے مگر اب تک کیے جانے والے کچھ فیصلوں سے عندیہ ملتا ہے کہ وہ خود کو مشرق وسطیٰ کے تنازعات میں ملوث نہیں کرنا چاہتی۔عہددیار نے بتایا کہ پاکستان نے فیصلہ کیا ہے کہ مزید اضافی فوجی سعودی عرب نہیں بھیجیں جائیں گے۔

پاکستان کے اس وقت سعودی عرب میں فوجی ٹرینر اور مشیر موجود ہیں۔سعودی قیادت کی شدید خواہش کے باوجود پاکستان کی جانب سے فوجیوں کی تعداد میں کوئی نمایاں اضافہ نہیں کیا جائے گا خاص طور پر یمن کے ساتھ سرحد کی حفاظت کے لیے۔پاکستان کے پاس اس فیصلے کی منصفانہ وجہ موجود ہے کہ اس کے فوجی پہلے ہی مقامی سیکیورٹی صورتحال میں بہت زیادہ پھیلے ہوئے ہیں۔

عہدیدار نے بتایا کہ پاکستانی سفارتی مشن کو صنعا سے عدن منتقل کرنے کا خیال بھی ختم کردیا گیا ہے۔اس کا کہنا تھا " سفارتی مشن کی منتقلی پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا کیونکہ ہر ایک (دیگر مشنز) وہاں سے منتقل ہورہے ہیں مگر اب ہم نے صنعا میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا ہے"۔یہ فیصلے اسلام آباد کے لیے آسان نہیں تھے خاص طور پر " ریاض کے ساتھ خاص فطرت کے تعلقات ' کے پیش نظر، جہاں بڑی تعداد میں پاکستانی ملازمتیں کررہے ہیں جبکہ سعودی عرب سے پاکستان کے اقتصادی مفادات بھی وابستہ ہیں۔

متعلقہ عنوان :