ہندوستان: سب سے کم عمر، مسلمان اور خاتون سرپنچ

جمعہ 27 مارچ 2015 15:00

ہندوستان: سب سے کم عمر، مسلمان اور خاتون سرپنچ

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔27مارچ2015ء) پہلی نظر میں بیس برس کی اس لڑکی کی شخصیت عام سی معلوم ہوتی ہے، لیکن افسانہ محمد بدیع کے لیے یہ سنگ میل پار کرنا آسان تھا، جنہوں نے گجرات میں سب سے کم عمر ’سرپنچ‘ یا گاؤں کا سربراہ بن کر ایک تاریخ رقم کی ہے۔ گجرات جسے فرقہ واریت کے لحاظ سے خاصا حساس سمجھا جاتا ہے، اسی ہندوستانی ریاست کا ایک گاؤں کنکوٹ بھی ہے، جو چار ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

اس گاؤں میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد 1992ء کے فسادات یا 2002ء میں گودھرا میں ٹرین نذرِ آتش کیے جانے کے سانحے کے بعد پھوٹ پڑنے والے فسادات کے دوران تصادم کا ایک واقعہ بھی رپورٹ نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ اس گاؤں میں پچھلے پچیس سالوں سے ایک مسلمان ’سرپنچ‘ کا انتخاب کیا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

افسانہ نے اکتیس دسمبر 2011ء میں کانگریس کے ٹکٹ پر ’پنچایت‘ (گاؤں کی قانون ساز کمیٹی) کا انتخاب اکیاون ووٹوں سے جیت کر دو امیدواروں کو شکست دی تھی۔

وہ ہفتے میں دو مرتبہ ’گرام پنچایت‘ (قانون ساز) کے اجلاس میں شرکت کرتی ہیں۔ دوسری صورت میں وہ اپنی موٹر بائیک پر اپنے خاندانی فارم پر کام کی نگرانی کے لیے چلی جاتی ہیں، جہاں سے گائے کا دودھ فروخت کیا جاتا ہے اور مصنوعی زیورات بھی تیار کیے جاتے ہیں۔ ’گرام پنچایت‘ میں ان کے پاس گاؤں کے تجربہ کار افراد اور سرکاری اہلکاروں پر مشتمل ایک ٹیم ہے، جو ان کی مدد کرتی ہے۔

افسانہ کے ساتھ تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے ہم جماعت ان سے اپنی دستاویزات کی تصدیق کے لیے ان کے پاس باقاعدگی سے آتے ہیں۔ گلف نیوز سے بات کرتے ہوئے افسانہ نے کہا ’’میں لوگوں کی توجہ کا لطف اُٹھاتی ہوں اور اسی کے ساتھ میں اپنی ذمہ داریوں سے بھی آگاہ ہوں۔ مجھے اپنے کام اور استعداد پر پورا بھروسہ ہے۔ اس گاؤں کی مجموعی ترقی میری ترجیح ہے۔

‘‘ انہوں نے کہا ’’میں جو کچھ کرسکتی تھی، وہ میں نے کیا ہے، لیکن ابھی ایک طویل راستہ طے کرنا ہے۔ گاؤں کے لوگ اپنی معاش کے لیے زراعت پر انحصار کرتے ہیں، اور اس کے لیے انہیں مون سون کا انتظار رہتا ہے۔ بطور ایک سرپنچ کے، میری ذمہ داری یہ دیکھنا ہے کہ ان کی زندگیوں کو کس طرح آسان بنایا جائے۔ ہم بارش کے پانی اور پیداوار کے حوالے سے بات چیت کررہے ہیں۔

‘‘ افسانہ جنہوں نے دسویں تک تعلیم حاصل کی ہے، کہتی ہیں کہ وہ اس وقت جذباتی ہوگئی تھیں، جب انہیں ہندوستان کے یومِ جمہوریہ کے موقع پر ان کے تعلیمی ادارے جے کے ٹی اسکول میں پرچم کشائی کی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’میں نے سرپنچ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اس اسکول کے لیے اضافی کلاس رومز کی منظوری حاصل کی تھی۔

میں چاہتی ہوں کہ میرے گاؤں میں ایک اور ہائی اسکول تعمیر کیا جائے اور اس جگہ ترقی لائی جائے۔‘‘ اس عہدے کو حاصل کرنا افسانہ کے خاندان کی روایت رہی ہے۔ دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کنکوٹ پنچایت کا یہ عہدہ ان کے خاندان کے پاس چلا آرہا ہے۔ انہوں نے بچپن ہی میں ’سرپنچ‘ بننے کا خواب دیکھا تھا۔ افسانہ کے والد محمد بدیع پندرہ سال تک سرپنچ رہے تھے، اور اب وہ کنکوٹ جنگلات کے تحفظ کی کمیٹی کے سربراہ ہیں۔

ان سے پہلے ان کی والدہ امینہ بدیع نے بھی ’گرام پنچایت‘ کا انتخاب جیتا تھا، اور ان سے پہلے ان کے والد محمود کے پاس یہ عہدہ تھا۔ مشکلات پر قابو پانا افسانہ کے لیے کوئی نئی بات نہیں، وہ کہتی ہیں۔ ’’میں ایس ایم پی ایچ ہائی اسکول جانے کے لیے اپنے گھر سے پانچ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرتی تھی۔ اس لیے کہ میرے گاؤں میں لڑکیوں کے لیے کوئی اچھا اسکول نہیں تھا۔‘‘ وہ اپنے گاؤں کی دیگر لڑکیوں کے لیے کچھ تبدیل کرنے کی خواہش رکھتی ہیں۔ ’’آج بھی کنکوٹ میں ہائی اسکول نہیں ہے۔ لہٰذا میں نے اپنے گاؤں کی لڑکیوں کو تعلیم فراہم کرنا اپنی ترجیح مقرر کی ہے اور میں ان کی ذمہ داریوں کے سلسلے میں بھی انہیں تعلیم دینا چاہتی ہوں۔‘‘