امریکہ کی مسلمانوں کے بارے دوہرے معیار اور امتیازی پالیسیوں کے ردعمل میں کبھی طالبان، القاعدہ اور کبھی داعش اور کبھی بوکو حرام جیسی طاقتیں سرابھار رہی ہیں‘ مولانا سمیع الحق ،

امریکہ کو جارح اقوام اور اسلامی ممالک کے ڈکٹیٹروں اورظالموں کی بجائے مظلوموں کا ساتھ دینا چاہیے ‘ سربراہ جے یو آئی (س)

ہفتہ 28 مارچ 2015 21:55

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔28مارچ2015ء) جمعیت علماء اسلام (س) کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے کہا کہ امریکہ کی مسلمانوں کے بارے میں دوہرے معیار اور امتیازی پالیسیوں کے ردعمل میں کبھی طالبان، القاعدہ اور کبھی داعش اور کبھی بوکو حرام جیسی طاقتیں سرابھار رہی ہیں جس کا قلع قمع مشکل ہوتا ہے جبکہ سوویت یونین کو شکست دینے کے بعد مغربی طاقتوں کو مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے تھا انہوں نے بڑی حد تک تسلیم کیا کہ امریکی پالیسیوں میں تضاد پایا جاتا ہے، اس کا واحد حل ہی ہے کہ امریکہ کو جارح اقوام اور اسلامی ممالک کے ڈکٹیٹروں اورظالموں کی بجائے مظلوموں کا ساتھ دینا چاہیے جبکہ کشمیر،فلسطین،عراق،شام او رمصر میں ایسا نہیں ہورہا ہے جس سے مسلمانوں اورمغربی اقوام کے درمیان جاری کشمکش اور خلیج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے امریکہ کے بین الاقوامی سینٹر برائے مذہبی پالیسی تھنک ٹینک کے سربراہ ڈاکٹر ڈوگلس ایم جونسٹن سے اپنی رہائش گاہ میں ملاقات میں کیا ۔ڈاکٹر ڈوگلس نے دارالعلوم حقانیہ کے تعلیمی اورانتظامی نظام اور ریسرچ و تحقیق کے شعبوں کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسے مغربی دنیا اور تعلیمی اداروں کو آئیڈیل قرار دیا ہے‘ ڈاکٹر ڈوگلس جو مختصر دو روزہ پر پاکستان آئے ہیں۔

یہاں دارالعلوم حقانیہ کے چانسلر مولانا سمیع الحق سے اکوڑہ خٹک میں ملاقات کی اور عالمی امن کو درپیش خطرات امریکہ کی خارجہ پالیسی، مدراس، تعلیمی نظام پر تفصیلی بات چیت کی۔ کئی گھنٹوں کے اس دورہ میں مولانا سمیع الحق نے انہیں دارالعلوم کے بنیادی شعبوں ہائی سکول کے کئی سیکشنز،انگریزی کلاسز، لائبریریز او رریسرچ و تحقیق کے شعبوں سمیت درس نظامی شعبہ افتاء اور فقہ و حدیث اور اسلامی قوانین کے سپشلائزیشن پر بھی مفصل بریفنگ دی جس پر معزز مہمان نے حیرت اور تعجب کا اظہار کیا،شعبہ تخصص کے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ڈوگلس نے کہاکہ دارالعلوم کا تعلیمی اور تحقیقی نظام نہایت متاثرکن ہے، یہاں جدید اصولوں پر مسائل کا حل نکالا جاتا ہے جو بہت مشکل کام ہے کیونکہ مغرب میں مذہب اور ریاست دو الگ الگ چیزیں ہیں، مذہب کو نظرانداز کرکے مسائل کا حل آسان ہے جبکہ یہاں ہر چیز کواسلام کے دائرے میں ڈالنا پڑتا ہے اور یہ مشکل کام یہاں انجام دیا جارہا ہے۔

انہوں نے مولانا سمیع الحق کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہاکہ میں عرصہ سے مولانا کا ذکر خیر سنتا رہا اور آج ان سے ملاقات کے بعد میں خوشگوار تاثرات لے کر جارہا ہوں ، اپنے تحریری تاثرات میں بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ یہاں ان تمام اچھے اصولوں کی پاسداری کا سبق سکھایا جاتا ہے، جسے قرآن اوردیگر آسمانی صحیفوں نے بیان کیا ہے۔ حقانیہ اور اس کے مہتمم مولانا سمیع الحق کو یہ سب کچھ عملاً پیش کرنے پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں،بعد میں خصوصی مجلس میں ڈاکٹر صاحب نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ امریکہ کی خارجہ پالیسیوں اور داعش وغیرہ پر خصوصی گفتگو کی۔

مولانا سمیع الحق نے کہا کہ ہم دہشت گرد نہیں بلکہ مظلوموں کے بارہ میں مسلم اور غیر مسلم کا امتیاز بھی جائز نہیں سمجھتے ، اس ضمن میں مولانا سمیع الحق نے کہا کہ میں نے افغانستان میں محصور پچیس جواں سال کورین خواتین کو اس وقت کے جنوبی کوریا کے وزیرخارجہ بانکی مون کی اپیل پر رہائی دلوائی او رآج کل میں نائیجریا میں بوکو حرام کے ساتھ محصور دو سو ساٹھ سکول کی بچیوں اور خواتین کو رہائی دلانے میں مصروف ہوں، ڈاکٹر ڈوگلس نے کہاکہ میں آپ سے جو سن رہا ہوں اور دیکھ رہاہوں یہی اسلام کا اصل چہرہ ہے جسے دنیا کے سامنے آنا چاہیے۔