ملا عمر کے بارے میں جو آج تک کوئی نہ جان سکا آخر وہ سامنے آ ہی گیا

پیر 6 اپریل 2015 11:13

ملا عمر کے بارے میں جو آج تک کوئی نہ جان سکا آخر وہ سامنے آ ہی گیا

لندن(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔6اپریل2015ء)ملاعمر کے طالبان کے سپریم کمانڈر کے طورپر 19سال مکمل ہونے پر ایک مختصر سی سوانح عمری شائع کی گئی ہے جس میں بتایاگیاہے کہ ملاعمر عام سی زندگی جیتے ہیں ، وہ کہاں ہیں، یہ کوئی نہیں جانتا لیکن وہ افغانستان اور دنیا بھر میں روزانہ کی بنیاد پر پیش آنے والے واقعات سے مطلع رہتے ہیں،کمال کی حس مزاح کے مالک ہیں ۔

افغان طالبان کی طرف سے اہم ویب سائیٹ پر شائع کی گئی پانچ ہزار الفاظ پر مشتمل سوانح عمری میں بتایاگیاہے کہ ملا عمر کا پسندیدہ ہتھیار آر پی جی 7 ہے۔ تحریر کے مطابق 1983 ءسے 1991ءکے درمیان فوجی کارروائیوں میں روسی فوجیوں سے لڑتے ہوئے ملا عمر چار بار زخمی ہوئے اور ان کی دائیں آنکھ بھی ضائع ہوگئی۔ سوانح عمری کے مطابق ملا عمر 1960 ءمیں ملک کے جنوبی صوبے قندھار کے ضلع خایریز کے چاہِ ہمت نامی گاو¿ں میںپیداہوئے اور اُن کا تعلق ہوتی قبیلے کی شاخ مزئی سے ہے۔

(جاری ہے)

ان کے والد مولوی غلام نبی معزز عالم اور سماجی شخصیت تھے اور ملا عمر کی پیدائش کے پانچ سال بعد ہی وہ وفات پا گئے تھے جس کے بعد ان کا خاندان صوبہ ارزگان منتقل ہوگیا تھاتاہم سوویت فوجوں کے افغانستان پر حملے کے بعد ملا عمر ’مذہبی ذمہ داری کو نبھانے کے لیے‘ مدرسے میں جاری تعلیم چھوڑ کر جہادی بن گئے۔1994ءمیں ملا عمر نے جنگی سرداروں کے درمیان ’قبائلی لڑائی‘ سے نمٹنے کے لیے مجاہدین کی قیادت کی جس کے بعد 1992 ءمیں کمیونسٹ حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔

اُنہیں 1996ءمیں ’امیرالمومنین‘ کا خطاب دیاگیااوروہ طالبان کے سپریم لیڈر بن گئے ۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق اُن کی شخصیت سے متعلق بتایاگیاکہ وہ متحمل مزاج کے مالک ہیں ، جلد غصہ نہیں آتا اور نہایت ملنسار ہیں ،وہ آج بھی گھر سے محروم ہیں تاہم موجودہ سنگین حالات میں دشمن مسلسل ان پر نظر رکھ رہے ہیں لیکن ان کے معمول میں کوئی خاص تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے۔ اس سوانح عمری پر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ یہ افغانستان میں دولت اسلامیہ یا داعش کے بڑھتے اثر کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہو سکتی ہے۔

ملا عمر کے بارے میں جو آج تک کوئی نہ جان سکا آخر وہ سامنے آ ہی گیا