جناح پارک پشاور، کمسن سیکس ورکروں کا گڑھ

منگل 14 اپریل 2015 12:56

جناح پارک پشاور، کمسن سیکس ورکروں کا گڑھ

پشاور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14اپریل2015ء) رقم، اسمارٹ فونز اور تحائف کے باآسانی حصول کا لالچ شمال مغربی صوبے خیبرپختونخوا میں کم سن اور غریب لڑکوں کو جنسی استحصال و بدسلوکی کے ایک تاریک راستے پر ڈال رہا ہے۔ اپنے پریشان کن تجربات بیان کرتے ہوئے پشاور کے ایک نوجوان رہائشی خان* کہتے ہیں کہ وہ جب بارہ برس کی عمر کے تھے تو ان کے بڑے بھائی کے دوست نے ان کا استحصال شروع کیا اور انہیں اس مقصد کے لیے تیار کیا۔

خان نے بتایا ’’احمد ایک امیر خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ ہم روزانہ اس کے گھر جاتے اور اس کے کھلونوں، موبائل اور دیگر گیجٹس کے ساتھ کھیلتے۔‘‘ انہوں نے کہا ’’ابتداء میں وہ پیار و محبت کے بہانے مجھے گلے لگاتا اور مجھے چھونے کی کوشش کرتا۔

(جاری ہے)

ایک روز جب ہم کمرے میں اکیلے تھے تو اس نے مجھ سے زبردستی زیادتی کہ، پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔

‘‘ احمد جب بھی خان کے ساتھ جب بھی زیادتی کرتا تو اس کے بدلے میں اس کو تحفے، اچھے کھانے اور نقد رقم دیا کرتا، وقت گزرنے کے بعد اس متاثرہ لڑکے کو اس نے اپنے دوست کے ساتھ متعارف کروایا، وہ بھی اس لڑکے کو زیادتی کا نشانہ بناتا۔ جنسی استحصال کا یہ راستہ خان کو پشاور کے جناح پارک میں لے گیا، جو پیشہ ور سیکس ورکروں اور بچوں کے استحصال کا ایک مرکز ہے۔

یہ پارک نوعمر جنسی کارکنوں کے لیے محفوظ پک اپ پوائنٹ ہونے کی وجہ سے بدنام ہوچکا ہے۔ پشاور کے مرکزی جی ٹی روڈ پر واقع یہ ’فیملی پارک‘ کے طور پر ایک پبلک پوائنٹ ہے۔ اس پارک کو اکثر ناپاک سرگرمیوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ آٹھ بجے رات کے بعد یہ پارک ویران ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے سیکس ورکروں کے لیے نظروں میں آئے بغیر اپنا کام کرنا آسان ہوجاتا ہے۔

خان نے یاد کرتے ہوئے کہا ’’میرے پڑوسیوں کو بالآخر اس بات کی ہوا لگ گئی کہ میں کس قسم کے کاموں میں ملؤث ہوگیا ہوں، اور یہ بات اس قدر بُری ثابت ہوئی کہ انہوں نے میرے گھر کا دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا۔ میں نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تمام تعلقات توڑنے پر مجبور ہوگیا۔‘‘ جناح پارک پر خان کی دیگر کم سن سیکس ورکروں اور خورشید نامی ایک دلال سے ملاقات ہوئی۔

خان نے بتایا ’’خورشید ہمیشہ مرد و خواتین دونوں قسم کے سیکس ورکروں کی تلاش میں رہتا ہے، اور اس کے مختلف ہوٹلوں اور راولپنڈی و قبائلی پٹی کے قحبہ خانوں سے اس کے رابطے ہیں۔ اس کی ان بس ڈرائیوروں سے بھی واقفیت ہے، جو نوجوان لڑکوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔‘‘ ایک اور کم سن لڑکا گل، جو پہلے اپنی روزی کمانے کے لیے جوتے پالش کرتا تھا، وہ بھی جناح پارک پر خفیہ جنسی تجارت میں ملوث ہوگیا۔

صاف جلد اور پُرکشش خدوخال کے گل نے بتایا کہ اس کو پہلی مرتبہ ایک بزرگ شخص نے پشاور کے علاقے پشتہ خارا میں زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس نے بتایا ’’ہمارے اہم گاہک ڈرائیور اور روزانہ اجرت پانے والے مزدور ہیں، جو ہمیں پارک کے تاریک حصوں میں لے جاتے ہیں۔‘‘ کسی قسم کی مدد کی امید نہ ہونے کی وجہ سے ان کم سن متاثرین نے اپنی قسمت کو قبول کرلیا ہے۔

خان نے بتایا ’’ہم اچھی رقم کمارہے ہیں، اور اب ہمارے پاس ٹچ اسکرین کے موبائل فونز بھی ہیں۔‘‘ انہوں نے انکشاف کیا کہ خورشید لڑکوں کو مختلف شہروں اور ضلعوں میں بھیجتا ہے، جہاں انہیں جنسی استحصال کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے پر اچھی رقم ادا کی جاتی ہے۔ کسی بڑے شہر میں ایک ہفتے طویل قیام کے دوران یہ نوجوان لڑکے آٹھ سے دس ہزار روپے باآسانی کماسکتے ہیں۔ خان نے کہا ’’مزدور، تاجر اور یہاں تک کہ سیکیورٹی اہلکار ہمارا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ ہر دوسرا فرد ہمیں بستر پر لے جانا چاہتا ہے۔ مجھے پسند نہیں ہے، لیکن میں صرف پیسے کمانے کے لیے ایسا کرتا ہوں۔‘‘

متعلقہ عنوان :