سعودی عرب: محبت کے نام پر خواتین کا استحصال

جمعہ 24 اپریل 2015 17:31

سعودی عرب: محبت کے نام پر خواتین کا استحصال

سعودی عرب(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔24اپریل2015ء) ایسے سعودی مرد جو اپنی گرل فرینڈز کا دل جیتنے کی کوشش کرتے ہیں، انہیں سعودی عرب میں ’’الحملان‘‘ یعنی بھیڑ کا بچہ یا میمنہ کہا جاتا ہے۔ وہ لڑکیوں کو مہنگے تحائف دیتے ہیں اور ان پر بے جااصراف کرتے ہیں۔ چنانچہ کچھ لڑکیاں ان کا استحصال کرتی ہیں اور اس طرح کے مردوں سے اپنے مطالبات میں اضافہ کرتی جاتی ہیں۔

دوسری جانب ایسی لڑکیاں بھی ہیں، جو نوجوان مردوں کو اپنا استحصال کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ وہ ان نوجوان مردوں کو مطمئن کرنے کے لیے بھاری رقم خرچ کرنے سے نہیں ہچکچاتی ہیں۔ عرب نیوز کی رپورٹ کے مطابق حالیہ جائزوں سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ کی ویب سائٹس نے مردوں اور خواتین کے درمیان تعلقات میں بہت سی رکاوٹیں دور کردی ہیں۔

(جاری ہے)

سعودی عرب کے جنوب مغربی حصے میں واقع صوبہ عسیر میں قائم سعودی جرمن ہسپتال پر فیملی کاؤنسلر اور ماہرِ تعلیم صباح زوہر کا کہنا ہے کہ خواتین اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے اس طرح کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ مرد خاص طور پر ایسے جو بے روزگار ہیں، اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی خواہش کے تحت ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔

ایک خاندانی تعلقات کے ایک مشیر محمود الراجح مادی فوائد کے لیے اقدار کی اس خطرناک تبدیلی کو مسترد کرتے ہیں، اس لیے کہ اس تبدیلی سے مردو خواتین کے درمیان اعتماد اور اعتبار کو نقصان پہنچے گا۔اس کے علاوہ مناسب اخلاقی اقدار اور حقیقی محبت ختم ہوجائے گی۔ انہوں نے اس غیرمعمولی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے آگاہی کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔

انہوں نے کہا کہ مادّی فوائد تلاش کرنے والی ایک عورت گرمجوش محبت اور ایماندار اور متوازن تعلقات سے محروم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہا ’’ہمیں خواتین کو موردِالزام ٹھہرانے سے پہلے لازمی طور پر ذمہ دار سماجی حکام سے سوال کرنا چاہیے کہ یہ حکام اس طرح کے رویے سے نمٹنے کے لیے کیا کررہے ہیں۔‘‘ ماہرِ نفسیات عبدالعزیز الغامدی کہتے ہیں کہ کچھ خواتین پُرتعیش اشیاء کی خواہشات کے لیے مردوں کا مالی طور پر استحصال کررہی ہیں، تاکہ وہ دوسری خواتین کو متاثر کرسکیں۔

اس مسئلے کے حوالے سے خاندان کی مناسب نگرانی کی عدم موجودگی کو وجہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے مطالبہ کیا کہ مدرسوں، سیکنڈری اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں لڑکیوں کو ان کے رویّوں کے بارے میں تعلیم دی جائے، جو ابھی سادہ اور آسان دکھائی دیتے ہیں، لیکن درحقیقت ان میں مبہم خطرات شامل ہیں۔ چوبیس برس کی سوعد علی جو استحصال کا شکار ہوئی تھیں، کہتی ہیں کہ وہ ایک نوجوان مرد کی جذباتی محبت میں مبتلا ہوگئی تھیں، جو ان سے پانچ برس بڑا تھا۔

انہوں نے بتایا ’’میں نے اس کی محبت میں سب کچھ قربان کردیا۔ میں نے اسے موبائل فون کے کارڈز خرید کر دیے اس لیے کہ اس کا کہنا تھا کہ اس کے پاس فون کرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ وہ کام نہیں کرتا تھا اور کھانے اور سگریٹ کے لیے رقم کا مطالبہ کرتا تھا۔ میں نے ہر مہینے تین سو درہم کی مالیت کے ہر مہینے تحائف دیے۔ اس کے علاوہ میں نے اس کے اوسطاً اوپر دو ہزار درہم ماہانہ خرچ کیے۔

‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس حقیقت کا اندازہ کرنے میں چار سال لگ گئے کہ وہ ان سے محبت نہیں کرتا تھا، بلکہ محض ان کا استعمال کررہا تھا۔ صلویٰ الزہرانی کے مطابق مردوں کی اکثریت اچھی خاتون سے شادی کرنا نہیں چاہتی۔ انہوں نے کہا ’’وہ ایسی خاتون چاہتے ہیں جو دولت مند یا ملازم پیشہ ہو تاکہ وہ اس کی رقم سے فائدہ اُٹھاسکیں۔

‘‘ ان کا کہنا تھا کہ ’’مثال کے طور پر مجھ سے ملنے والا ہر مرد اپنی پہلی ملاقات میں اپنی ناکافی آمدنی کے بارے میں بات کرتا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی نظر میری دولت پر تھی۔‘‘ بائیس برس کی ترکیہ العامری جو ایک بینک میں کام کرتی ہیں، کہتی ہیں کہ انہوں نے کئی برسوں تک ایک نوجوان مرد پر ایک لاکھ درہم سے زیادہ کی رقم خرچ کی۔ کئی سالوں کے بعد انہیں یہ حقیقت معلوم ہوئی کہ یہ اس کی محبت نہیں بلکہ اس کا حرص اور لالچ تھا۔