ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کی طرف سے گزشتہ 5سالوں میں اہم فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کی67نئی اقسام متعارف

پیر 27 اپریل 2015 15:17

ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کی طرف سے گزشتہ 5سالوں میں اہم فصلوں، پھلوں ..

فیصل آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 27اپریل۔2015ء)ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ کی طرف سے گزشتہ 5سالوں میں اہم فصلوں، پھلوں اور سبزیوں کی67نئی اقسام متعارف کرائی گئی ہیں جوموسمی حالات کا بہترمقابلہ کرنے کے ساتھ زیادہ پیداواری صلاحیت کی بھی حامل ہیں۔ ادارہ ہذا میں تیار کی گئی گندم کی اقسام پاکستان کے99فیصد، کماداقسام92فیصد ،کپاس اقسام 95فیصد اور دھان اقسام88فیصدرقبہ پر کاشت ہورہی ہیں جوکہ ادارہ کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

پاکستان کپاس پیداکرنے والے ممالک میں چوتھے ،کماد اور آم کی پیداوارمیں پانچویں،ترشاوہ پھلوں کی پیداوار میں چھٹے، چنے میں ساتویں، گندم اور پیاز میں آٹھویں، دھان میں گیارہویں، تیلدارا جناس میں بارہویں جبکہ سبزیات کی پیداوارمیں سولہویں نمبر پر ہے۔

(جاری ہے)

زرعی تحقیق کے لیے تربیت یافتہ ہیومن ریسورس اور بجٹ کی کمی کے مسائل ہونے کے باوجود ادارہ ہذا کے سائنسدان تمام فصلوں کی نہ صرف نئی سے نئی اقسام کا میابی سے تیارکررہے ہیں بلکہ ان کی پیداواری ٹیکنالوجی میں بہتری کے لیے نت نئے تجربات بھی کررہے ہیں جس کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔

ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر عابد محمود ڈائریکٹر جنرل ایگری کلچرل ریسرچ پنجاب نے ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کے ایڈیٹوریم میں زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے فارغ التحصیل زرعی سائنسدانوں کی ایلومینائی ایسوسی ایشن کے 59ویں اجلاس میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کیا۔

اس ایلومینائی اجلاس میں بھارت کی پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی لدھیانہ کے وائس چانسلرڈاکٹر بلدیوسنگھ ڈھلوں اور چیئرمین پنجاب کسان کمیشن ڈاکٹر گرچرن سنگھ کالکٹ سمیت ایک درجن سے زائد بھارتی سائنسدانوں سمیت گھانا اور پاکستان کے زرعی ماہرین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔

وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آبادپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ بھارتی اور پاکستانی پنجاب کے مابین زرعی تعلیم و تحقیق کے شعبے میں تعاون بڑھا کر دونوں ملکوں کے زرعی شعبوں میں انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کی غذائی ضروریات کے پیش نظر دنیا بھر کے زرعی سائنسدان زرعی پیداوار میں اضافہ کے لیے مشترکہ کوششیں کریں۔

ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے ایلومنائی ایسوسی ایشن کی تقریبات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ اس خطہ کے زرعی سائنسدانوں کومحترک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے جس کے ذریعے ان کے پیشہ وارانہ اُمور میں بہتری سے تحقیقی عمل کو تیز کرنے میں مدد ملے گی۔پنجاب ایگریکلچرل یونیورسٹی لدھیانہ کے وائس چانسلر ڈاکٹر بلدیو سنگھ ڈھلوں نے اپنے خطاب میں بتایا کہ انڈیا میں پاکستانی سائنسدان ڈاکٹرمشتاق احمد گلِ کی کاوشوں سے لیزر لینڈ لیولنگ ٹیکنالوجی متعارف ہوئی جس سے ہمارے کاشتکاروں کی مختلف فصلوں کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ۔

انہوں نے بتایا کہ کپاس ، کنو،دھان اورکماد میں پاکستانی کاشتکاروں کی فی ایکڑپیداوار زیادہ ہے جبکہ ہمارا ملک گندم ، سبزیات ، تیلدارودیگر فصلوں کی پیداوارمیں پاکستان سے آگے ہے۔ متوازن اور متناسب کھادوں اور زرعی زہروں کا بہتر استعمال نہ ہونے کے باعث پاکستان اور انڈیا کے زرعی سائنسدانوں کی متعارف کردہ نئی اقسام کی پیداواری صلاحیت کے مطابق پیداوار حاصل نہیں ہورہی ۔

چیئرمین پنجاب فارمرز کمیشن موہالی ڈاکٹر گرچرن سنگھ کالکٹ نے نے اپنے خطاب میں اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کے زرعی ماہرین اور ترقی پسند کاشتکاروں کے وفود کے باہمی تبادلہ کے لیے مستقل بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے تاکہ ان لوگوں کوایک دوسرے کے زرعی مسائل کو قریب سے دیکھنے اور ان کے حل کے لیے مواقع میسر ہوسکیں۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی کاشتکاروں کے مقابلہ میں بھارتی پنجاب میں کاشتکاروں کو حکومت کی طرف سے بہتر سہولیات میسر ہیں اور ان کی زرعی اجناس کے مناسب اور بہتر دام مل رہے ہیں۔ محترمہ صدف کی خصوصی تحریر پر طلباء نے ہیر رانجھاکے کرداروں کے تاریخی پنجابی کلچر کو جدید رنگ میں پیش کرکے حاضرین سے داد تحسین حاصل کیا۔