بوگوٹا کے سابق میئر اب کراچی کی بہتری کے لیے سرگرم

Fahad Shabbir فہد شبیر جمعرات 30 اپریل 2015 00:44

بوگوٹا کے سابق میئر اب کراچی کی بہتری کے لیے سرگرم

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔29اپریل۔2015ء) کولمبیا کے دارالحکومت کے سابق میئر اَینرِیک پینالوسا جرائم اور سست ٹریفک کی وجہ سے مشہور شہر بوگوٹا کو نئی پہچان دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اب وہ یہی کام پاکستان کے شہر کراچی کے لیے کرنے کی جدوجہد میں ہیں۔ بوگوٹا کے سابق میئر پینالوسا ان دنوں پاکستانی حکام کی مددکرتے ہوئے ان کوششوں میں ہیں کہ پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے اور صوبہ سندھ کے بندرگاہی شہر کراچی میں کس طرح کی تبدیلیاں لائی جائیں کہ یہ مسلسل پھیلتا ہوا شہر اپنی بدنظمی اور تشدد سے عبارت ساکھ سے چھٹکارا حاصل کر سکے۔

پینالوسا کراچی میں اپنی مشاورتی مصروفیات کے دوران ان تجربات کو استعمال میں لانے کی کوششیں کر رہے ہیں، جن کے ذریعے انہوں نے میئر کے طور پر کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا کو ایک نیا تشخص دیا تھا۔

(جاری ہے)

پاکستانی صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں اس وقت شہر کے پہلے باقاعدہ لیکن وسیع تر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو متعارف کرانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، جس پر قریب ایک بلین ڈالر لاگت آئے گی اور جسے بس ریپڈ ٹرانزٹ یا BRT نیٹ ورک کا نام دیا گیا ہے۔

کراچی نہ صرف پاکستان کی مرکزی بندرگاہ ہے بلکہ ملک کی اقتصادی شہ رگ بھی کہلاتا ہے۔ لیکن اس شہر کی آبادی میں 1998ء سے اب تک ہر سال قریب چار فیصد کا اضافہ ہوتا رہا ہے جبکہ عوامی ذرائع آمد و رفت کی صورت حال اسی تناسب سے بہتر ہونے کے بجائے خراب ہی ہوئی ہے۔ اس پر حکام کے لیے یہ بات بھی باعث تشویش ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک ADB کے مطابق اپنی موجودہ رفتار سے پھیلتے پھیلتے کراچی 2030ء تک اتنا بڑا ہو چکا ہو گا کہ اس کی آبادی 31 ملین سے زیادہ ہو چکی ہو گی۔

شہری زندگی اور اس کے معیار کے لحاظ سے کراچی شہر کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ عام شہریوں کی آمدنی میں اضافے کی وجہ سے عام لوگوں کے زیر استعمال موٹر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ ٹریفک کا شور زیادہ ہوتا جا رہا ہے اور شہر کی فضا آلودہ تر ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں جگہ جگہ بڑے بڑے ٹریفک جام نظر آتے ہیں اور سڑکیں ہیں کہ متواتر تعمیراتی منصوبوں اور ناجائز تجاوزات کی وجہ سے تنگ پڑتی جا رہی ہیں۔

کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ نظام کسی منظم طریقے سے کام نہیں کرتا۔ زیادہ تر ذرائع آمد و رفت نجی شعبے کے ٹرانسپورٹرز کی ملکیت ہیں اور پورے شہر میں سڑکوں پر جتنی بھی گاڑیاں نظر آتی ہیں، ان میں مسافروں کے زیر استعمال آنے والی بسوں کا تناسب محض پانچ فیصد ہے۔ اسی لیے بوگوٹا کے سابق میئر اَینرِیک پینالوسا کہتے ہیں کہ اگر فوری طور پر مؤثر اور کافی اقدامات نہ کیے گئے تو جلد ہی کراچی کی شہری صورت حال ایسی ہو گی جیسے کوئی ایسی بدنظمی جس سے باہر نکلنا ممکن ہی نہ رہا ہو۔

پینالوسا نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ آئندہ برسوں میں کراچی میں آج کے مقابلے میں 20 گنا زیادہ گاڑیاں ہوں گی، ’’آج اگر درست فیصلے نہ کیے گئے تو مستقبل قریب میں کراچی مکمل طور پر ٹریفک جام کا شکار ہو جائے گا۔‘‘ پینالوسا ایشیائی ترقیاتی بینک کے علاوہ بحریہ ٹاؤن کے لیے بھی تکنیکی مشاورت کا کام کرتے ہیں، جو کہ پاکستان میں پراپرٹی ڈویلپمنٹ کے شعبے کے سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔

پینالوسا کہتے ہیں کہ بوگوٹا میں انہوں نے سائیکل سواروں کے لیے سینکڑوں کلومیٹر طویل خصوصی راستے بنوائے، بسوں کے لیے سڑکوں پر علیحدہ راستے مختص کیے، جہاں باقی ٹریفک کا داخلہ منع تھا اور ساتھ ہی پیدل چلنے والے شہریوں کے لیے فٹ پاتھوں کی صورت حال بھی بہتر بنائی۔ پینالوسا کے بقول پاکستان میں بالعموم اور کراچی میں بالخصوص عام شہریوں کو ٹرانسپورٹ کے شعبے میں وہ بنیادی جمہوری حقوق فراہم کرنا ضروری ہے جن کی انہیں ملکی آئین ضمانت دیتا تھا۔

وہ کہتے ہیں، ’’آئین کی رو سے تمام شہری برابر ہیں، ہر کسی کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ اگر ایسا ہے تو بنیادی جمہوریت کا تقاضا یہ ہے کہ اس ایک بس کو، جس میں 80 مسافر بیٹھے ہوں، اس ایک کار کے مقابلے میں سڑک پر 80 گنا زیادہ جگہ دی جائے، جس میں صرف ایک فرد سفر کرتا ہے۔‘‘ کراچی شہر میں جس وسیع اور جدید تر پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم پر کام کیا جا رہا ہے، اس کی تکمیل پر 100 ارب روپے یعنی قریب ایک بلین ڈالر لاگت آئے گی اور یہ رقوم پبلک اور پرائییوٹ شعبوں کی طرف سے سرمایہ کاری کی صورت میں مہیا کی جائیں گی۔

کراچی میں اپنی مقصدیت میں یہ ٹرانسپورٹ منصوبہ لاہور کے اسی میٹرو بس پروجیکٹ کی طرح کا ہو گا جو ترکی کے تعاون سے مکمل کیا گیا تھا اور 2013ء سے پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں بڑی کامیابی سے کام کر رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :