وفاقی آڈیٹر کی پاکستانی ہائی کمیشن اور برطانیہ میں قائم پاکستانی قونصلیٹ میں سنگین نوعیت کی مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی نشاندہی

پیر 4 مئی 2015 13:19

وفاقی آڈیٹر کی پاکستانی ہائی کمیشن اور برطانیہ میں قائم پاکستانی قونصلیٹ ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) وفاقی آڈیٹرز نے لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن اور برطانیہ میں دیگر شہروں میں قائم پاکستانی قونصلیٹ میں سنگین نوعیت کی مالی اور انتظامی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کردی ۔نجی ٹی وی کے مطابق پبلک اکاوٴنٹس کمیٹی (پی اے سی) کی جانب سے لی گئی رپورٹ قومی اسمبلی کے سامنے پیش کیے جانے کیلئے تیار ہوگئی جس کے مطابق ان بے ضابطگیوں کے تحت قیمتی زرمبادلہ سے ملکی خزانے کو محروم اور برطانیہ میں مقیم تارکین وطن پاکستانیوں کو پریشان کیا گیاوفاقی آڈیٹرز کی رپورٹ میں بیان کی گئی اہم بے ضابطگیوں میں لاکھوں برطانوی پاوٴنڈز کے غیرمجاز اخراجات، ویزہ اسٹکرز اور پاسپورٹوں کی گمشدگی اور ضرورت و لازمی اجازت کے بغیر عمارتوں کو کرائے پر حاصل کرناشامل ہیں۔

(جاری ہے)

آڈیٹرز نے رپورٹ دی کہ ایک واقعہ میں سیریل نمبرز وی جی811680 سے وی جی811700 کے اکیس ویزہ اسٹیکرز سرکاری ریکارڈ سے گمشدہ پائے گئے۔رپورٹ میں حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”ویزہ اسٹکرز کی گمشدگی ایک سنگین غلطی ہے۔

برمنگھم کے قونصلیٹ کو اسلام آباد میں امیگریشن اور پاسپورٹس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کو فوری طور پر مطلع کرنا چاہیے تھا۔تاکہ وہ اسے کسی ملک دشمن عناصر کے ہاتھوں میں جانے سے پہلے اس کو منسوخ کردیتے۔

“اسٹیکرز کی گمشدگی میں ملوث اہلکاروں کے خلاف ذمہ داری کا تعین کرنے کیلئے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات کی سفارش کرنے کے علاوہ وفاقی آڈیٹرز نے ڈائریکٹر جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹ سے کہا ہے کہ وہ ان ویزہ اسٹکرز کی منسوخی کا سرکلر جاری کریں۔رپورٹ میں بیان کی گئی بے ضابطگیوں کے حوالے سے اپنا ردّعمل دیتے ہوئے ہائی کمیشن کے ترجمان نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ ویزہ اسٹیکرز کے معاملے کا باضابطہ طور پر جائزہ لیا گیا تھا اور اس معاملے کی ایک رپورٹ وزارتِ خارجہ کو پہلے جمع کرادی گئی تھی تاہم ترجمان نے رپورٹ کے نتائج پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیاآڈٹ رپورٹ نے انکشاف کیا کہ ویزہ کے اجراء کیلئے برمنگھم قونصلیٹ پر درج پاسپورٹ کے حوالے سے آمدنی کے اعدادوشمار میں سنگین بے قاعدگیاں پائی گئیں جو ایک لاکھ 31 ہزار 239 برطانوی پاوٴنڈز تک کی ہیں ایک برطانوی پاوٴنڈ کی موجودہ شرح مبادلہ 153.9 پاکستانی روپے کے تحت یہ نقصان دو کروڑ سے زیادہ کا ہے۔

رپورٹ کے مطابق یہ مشاہدہ کیا گیا کہ پاسپورٹس، ویزے اور تصدیق پر قونصلر کی رسید مشن کی جانب سے مناسب طور پر حساب نہیں کیا گیا۔

درج کیے گئے فی پاسپورٹ کی اصل رسید اور کیش بک میں ظاہر کی گئی رقم میں ایک لاکھ 31 ہزار 239 برطانوی پاوٴنڈز کا فرق ہے تاہم ہائی کمیشن کے ترجمان نے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ ”اکاوٴنٹس ایک سادہ غلطی“ تھی جسے بعد میں درست کردیا گیا تھا۔

رپورٹ میں اس جانب بھی اشارہ کیا گیا کہ اس وقت کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کی رہائشگاہ کے حصول کیلئے بیکار، قابل اجتناب اور غیرضروری طور پر ایک لاکھ 32 ہزار 567 پاوٴنڈز کی رقم خرچ کی گئی۔رپورٹ کے مطابق واجد شمس الحس نے 93 وننگٹن روڈ پر ہائی کمشنر کی آٹھ کمروں پر مشتمل رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کروائی۔دفتر خارجہ پر متعلقہ افسر نے تبصرے کی درخواست پر کہا کہ ”عارضی رہائشگاہ کے حصول کے چھ مہینوں کے اندر اندر تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا جاتا ہے لہٰذا عارضی رہائشگاہ کا حصول اور سفارتخانے کی رہائشگاہ کی تزئین و آرائش کے کام میں موافقت ہونی چاہیے۔

“رپورٹ کے مطابق ہائی کمشنر تزئین و آرائش کے کام کے آغاز سے تقریباً سات مہینے پہلے کرائے کی رہائشگاہ پر منتقل ہوگئے تھے جس کی لاگت چار ہزار ایک سو برطانوی پاوٴنڈز فی ہفتے تھی۔فیصلے کے مالی اثرات ایک لاکھ 14 ہزار آٹھ سو کے لگ بھگ مرتب ہوئے۔

آڈیٹرز نے لندن وزٹ کے دوران سابق صدر آصف علی زرداری کیلئے گاڑیوں کے حصول پر 57138.75 برطانوی پاوٴنڈز کے اخراجات کو بھی بے قاعدگی قرار دیا ہے۔

مانچسٹر قونصلیٹ میں 27 ہزار چھ سو پاوٴنڈز کے زیاں کی بھی رپورٹ کی گئی ہے جس سے ایک غیرضروری عمارت حاصل کی گئی۔وفاقی آڈیٹرز نے بریڈ فورڈ قونصلیٹ میں 4 لاکھ 60 ہزار 800 پاوٴنڈز کے نقصان کی رپورٹ کی ہے، جو کمیشن کی جانب سے ایک کوریئر کمپنی کو ضابطے کے خلاف ادا کیے گئے۔رپورٹ کے مطابق آڈٹ کے دوران یہ مشاہدہ کیا گیا کہ بریڈفورڈ قونصلیٹ نے 2012-13 کے دوران بارہ ہزار آٹھ سو ویزے جاری کیے تھے تاہم آڈیٹرز حیرت زدہ تھے کہ قونصلیٹ نے ایک کوریئر کمپنی کو بغیر اجازت کے 36 پاوٴنڈز فی ویزہ ادا کیے۔

آڈیٹرز کو اس حوالے سے کوئی جواز بھی فراہم نہیں کیا گیا۔مانچسٹر میں تین لاکھ 34 ہزار 692 پاوٴنڈز اور برمنگھم میں چار لاکھ 56 ہزار 732 پاوٴنڈز کے نقصان کی بھی رپورٹ دی گئی ہے، جو اسی طرز کے معاملے میں کوریئر کمپنی کو ادا کیے گئے تاہم ترجمان نے اصرار کیا کہ پاسپورٹ پہنچانے والی کوریئر کمپنی کو پی پی آر اے کے قوانین کے مطابق ادائیگی کی گئی تھی۔

متعلقہ عنوان :