قومی لائحہ عمل کی اونر شپ ایوان میں سب جماعتوں کی ہے ،مدارس سمیت بعض معاملات پراختلاف تھے،چودھری نثار

دہشتگردوں سے مذاکرات کئے تو پتہ لگا دوسرافریق منافقت کررہاہے ،آٹھ جون کو سیاسی وعسکری قیادت نے فوجی آپریشن کامتفقہ فیصلہ کیا ،تین ماہ کے اندر دہشتگردی کیخلاف پاک فوج نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، بہت سے دہشتگرد ہلاک بہت سے فرار ہوگئے،ستمبر کے بعد دہشتگرد دباؤ میں آگئے خود کو زندہ رکھنے کیلئے آرمی پبلک سکول پشاور پردھماکہ کیا،وفاقی وزیرداخلہ کاسینیٹ میں اظہارخیال

پیر 4 مئی 2015 22:07

قومی لائحہ عمل کی اونر شپ ایوان میں سب جماعتوں کی ہے ،مدارس سمیت بعض ..

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 مئی۔2015ء) وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان نے کہاہے کہ قومی لائحہ عمل کی اونر شپ ایوان میں سب جماعتوں کی ہے مدارس سمیت بعض معاملات پراختلاف تھے، دہشتگردوں سے مذاکرات کئے تو پتہ لگاکہ دوسرافریق منافقت کررہاہے آٹھ جون کو سیاسی وعسکری قیادت نے فوجی آپریشن کامتفقہ فیصلہ کیا تین ماہ کے اندر دہشتگردی کیخلاف پاک فوج نے بڑی کامیابیاں حاصل کیں، بہت سے دہشتگرد ہلاک بہت سے فرار ہوگئے،ستمبر کے بعد دہشتگرد دباؤ میں آگئے خود کو زندہ رکھنے کیلئے آرمی پبلک سکول پشاور پردھماکہ کیا۔

پیر کو سینیٹ کے اجلاس میں اظہارخیال کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی نے کہاکہ پورے پاکستان کے طول وعرض میں دھماکے ہوئے 2009 اور2010ء پاکستان میں دہشتگردی کے لحاظ سے خطرناک سال تھا نائن الیون کے بعد سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی گھمبیر ہوگئی جب مسلم لیگ ن کی حکومت اقتدار میں آئی تو روزانہ پانچ سے چھ دھماکے ہوتے تھے حکومت نے آٹھ ماہ تک مذاکرات کے ذریعے مسئلے کاحل تلاش کرنے کی کوشش کی کیونکہ قوم بات چیت کے ذریعے دہشتگردوں کیساتھ مسئلہ حل کرناچاہتی تھی لیکن احساس ہوگیا کہ دوسری طرف سے دہشتگرد متضاد پالیسی کاشکار ہیں ایک طرف بات چیت جاری تھی اور دوسری طرف سے حملے جاری تھے اس کی حد اس وقت ہوئی جب دہشتگردوں نے کراچی ایئرپورٹ پر حملہ کیا اور اس کے شواہد ملے کہ دہشتگرد وں نے ایسی تنظیموں کانام لیکر حملے کئے جن کاوجود بھی نہیں اس حملے کے بعد موجودہ حکومت اور ملٹری قیادت نے فیصلہ کیا کہ اس دویقینی فضا کو ختم کیاجائے اس حوالے سے بہت سارے اجلاس ہوئے ۔

(جاری ہے)

بہت سے لوگوں نے کہاکہ شاید حکومت کی فوجی آپریشن کی نیت نہیں تھی میں انہیں بتاناچاہتاہوں کہ آج بھی وہی وزیراعظم ہیں، وہی کابینہ اور وہی ملٹری قیادت ہے 8جون2013ء کو متفقہ طورپر فیصلہ کیا گیاکہ فوجی آپریشن کیاجائیگا اور یہ بھی فیصلہ کیاگیا کہ پوری کوشش کی جائے گی اس آپریشن میں سویلین کا کم سے کم بلکہ نہ ہونے کے برابر نقصان ہو اور اس مشکل صورتحال میں فاٹا کی عوام کو کم سے کم تکلیف ہو افغانستان میں صدارتی انتخابات کی وجہ سے فیصلہ ہوا کہ الیکشن کے بعدفوجی کارروائی کاباقاعدہ آغاز کیاجائیگا انہوں نے بتایا کہ تین ماہ میں افواج پاکستان نے بہت بڑی کامیابیاں حاصل کیں وسیع علاقے میں پاکستان کی حکمرانی بحال کی اور جھنڈا سربلند کیا بہت سے دہشتگرد مارے گئے اور بہت سے دہشتگرد مخصوص ایجنسی میں فرار ہوگئے کچھ دہشتگرد بارڈر کراس کر گئے انہوں نے کہاکہ جون16 سے لیکر ستمبر تتک پاکستان کاکوئی ایساعلاقہ نہیں تھا جہاں دہشتگردوں کانیٹ ورک نہ ہو دہشتگرد بھاگ رہے تھے اوراپنا نیٹ ورک بحال کررہے تھے ستمبرکے بعد دہشتگردوں کے تمام نیٹ ورک توڑ دیئے پھرانہوں نے اپنے آپ کوزندہ رکھنے کیلئے آرمی پبلک سکول پر حملہ کیا جس پر معصوم بچے شہید ہوئے اس واقعہ سے پور ی قوم لرز اٹھی جس کے بعد تمام قیادت پشاور میں اکٹھی ہوئی اور آل پارٹیزکانفرنس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایک کمیٹی بنائی جائے گی جو سات دن کے اندر قومی لائحہ عمل طے کریگی اس کمیٹی کی سربراہی مجھے سونپی گئی ہم نے ایک دن میں گیارہ گیارہ گھنٹے کام کیا اور پانچ دن کی قلیل مدت میں بیس نکاتی قومی ایکشن پلان تشکیل دیا گوکہ ان ایشوز پر شدید اختلافات بھی تھے ہم سے سوال کیاجاتا ہے کہ قومی لائحہ کا مالک کون ہے انہوں نے کہاکہ قومی لائحہ عمل کامالک تمام سیاسی جماعتیں ہیں جو اس کو اون کرتی ہیں قومی لائحہ عمل کاکریڈٹ تمام اپوزیشن جماعتوں کو جاتا ہے اس کی اونر شپ تمام سیاسی جماعتوں، سول ملٹری قیادت اور وفاق کی اکائیوں کو جاتی ہے انہوں نے کہاکہ نیشنل ایکشن پلان کی بنیاد صوبائی حکومتیں ہیں ایپکس کمیٹیاں صوبائی سطح پربہت اچھا کام کررہی ہیں 2009/10 میں دہشتگردی کی انتہا ہوگئی تھی اگرکسی کو یاد نہیں تووہ اس وقت کے اخبارات اٹھالیں جون سے قبل روزانہ کے حساب سے پانچ دھماکے ہوتے تھے اب کئی کئی ہفتے گزرجاتے ہیں اوردھماکے نہیں ہوتے اس کاکریڈٹ پارلیمان، صوبائی حکومتوں ، فوجی اور سیاسی قیادت کو جاتاہے ۔

انہوں نے کہاکہ داخلی سلامتی اورانسداد دہشتگردی کالائحہ عمل پیچیدہ مسئلہ ہے ستمبر کے بعد دہشتگرد دباؤ میں آگئے قومی ایکشن پلان کاخاکہ وزارت داخلہ نے بنایا قومی ایکشن پلان کی سولہ سب کمیٹیوں میں گیارہ میرے ماتحت ہیں۔