خواتین پر تشدد سے ممانعت کا ”حکومتی‘ ‘بل ، بحث کے بغیر مسترد ،تمام جماعتیں دوبارہ جائزہ لیں گی

Zeeshan Haider ذیشان حیدر جمعرات 11 جون 2015 19:45

لاہور ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 11 جون۔2015ء ) خواتین پر تشدد کی روک تھام اور متاثرہ خواتین کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے پنجاب اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی سے سے منظور کیا جانے والا مسودہ قانون حکومتی و اپوزیشن ارکان نے عملی طور پر مسترد کریا ہے جس کی وجہ سے یہ مسودہ قانون اسمبلی میں زیر بحث لانے اور منظور کرنے کے بجائے موخر کردیا گیا ہے ۔

اب اس بل پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کے قائد اور ان کے نمائندے ازسرِ نو غور کریں گے جس کے بعد اسے ایوان میں پیش کیا جائے گا جس سے دو دن پہلے تمام اراکان کو اس مسودہ قانون میں ترامیم پیش کرنے کا موقع مل سکے گا ۔ ۔ موجودہ پارلیمانی دور میں یہ پہلا موقع ہے کہ سٹینڈنگ کمیٹی کی منظوری کے بعد ایجنڈے پر آنے والے بل پر پارلیمانی لیڈر دوبارہ غور کریں گے جبکہ پارلیمانی طریقِ کار کے مطابق سٹینڈنگ کمیٹی کی منظوری کے بعد مسودہ قانون پر ائیوان میں شق وار بحث کرکے اسے منظور یا مسترد کیا جاتا ہے ۔

(جاری ہے)

وزیر قانون کے اعلان کے مطابق یہ بل جمعرات کو منظوری کیلئے ایوان میں پیش کیا جانا تھا جبکہ بل کی منظوری کا عمل دیکھنے کیلئے این جی اوز کی نمائندہ خواتین بھی اسمبلی کی گیلری میں موجود تھیں ۔ جمعرات کو اجلاس کے دوران جب ڈپٹی سپیکر سردار شیر علی گوچانی نے وزیر قانون کو یہ بل پیش کرنے کیلئے کہا تو حکومتی و اپوزیشن ارکان نے پوائنٹ ااف آرڈر پر بارتے ہوئے اس بل پر تحفظات کا اظہار کیا جس میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر ڈاکتر وسیم اختر کا موقف تھا کہ اس بل کی شقو ں کا شرعی اعتبار سے جائزہ لیا جانا ضروری ہے ۔

حکومتی رکن اعظمیٰ زاہد بخاری نے بھی بات کرنا چاہی تو سپیکر کہا کہ ان کی بات سے آگاہ ہے ، اسی طرح فائزہ ملک نے بھی بات کرنا چاہی تو وزیر قانون نے ایوان کو آگاہ کیا ۔ کہ اگرچہ سٹینڈنگ کمیٹی یہ بل منظور کرکے اپنی رپورٹ ایوان میں پیش کرچکی ہے اور آج اسے ایوان میں پیش کرنے کیلئے ایجنڈے کا ھصہ بنا گیا ہے ہے لیکن اسمبلی کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی میں اس پر مصل بات ہوئی ہے جس میں اپوزیشن لیڈر سمیت تمام پارلیمانی جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے بعد اتفاق رائے کیا گیا ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتوں کے لیڈر یا ان کے نمائندے، ایک خصوصی کمیٹی جس میں پچاس فیصد خواتین شامل ہونگی، اس بل پر غور کرلیں اور اس کے بعد یہ بل ایوان میں لایا جائے اس سے پہلے تمام ارکان کو واضح طور پر دو روز کا وقت دیا جائے گا تاکہ وہ اس بل میں ترامیم پیش کرسکیں ۔

لہٰذا وہ بل ایوان میں پیش نہیں کر رہے ۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں بھی اس بل پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا لیکن نامعلوم وجوہ اور دباؤ کی وجہ سے اس کی منظوری دیدی گئی تھی لیکن اس محکمے کے وزیر نے یہ بل ایوان میں پیش کرنے سے معذرت کرلی تھی جس کے بعد طے پایا تھا کہ یہ بل وزیرقانون رانا ثناء اللہ خان ایوان میں پیش کریں گے ۔

واضح رہے کہ اس بل کی منظوری کا عمل مانیٹر کرنے کیلئے اسمبلی کی وزیٹرز گیلری موجود خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی این جی اوز کی نمائندگان بھی اس بل پر تحفظات رکھتی تھیں۔اس بل کے بارے میں فرزانہ ممتاز کا کہنا تھا کہ سول سوسائٹی نے حکومت نے خواتین پر گھریلو تشدد کے حوالے سے جو بل تجویز کیا تھا حکومت نے اسے سرد خانے میں ڈال دیا اور جو بل حکومت نے تجویز کیا ہے وہ نصرف مقاصد پورے نہیں کرتا بلکہ کئی مسائل کا موجب بھی بن سکتا ہے