امریکہ و مغربی طاقتیں پاکستان کو کبھی ترقی نہیں کرنے دیں گے ، اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے انہیں حرکت میں لانا ہوگا ، بدقسمتی سے جو بھی حکومت آتی ہے ملکی وسائل کو حرکت میں لانے کی بجائے بیرونی قرضوں کو ترجیح دیتی ہے

جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کاقومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران خطاب

جمعہ 12 جون 2015 14:49

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 12 جون۔2015ء ) جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ امریکہ و مغربی طاقتیں پاکستان کو کبھی ترقی نہیں کرنے دیں گے ، اگر ہم ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ملکی وسائل پر انحصار کرتے ہوئے انہیں حرکت میں لانا ہوگا ، مگر بدقسمتی سے جو بھی حکومت آتی ہے ملکی وسائل کو حرکت میں لانے کی بجائے بیرونی قرضوں کو ترجیح دیتی ہے ، پاکستانی عوام سمجھتے ہیں کہ ان کے ادا کردہ ٹیکسوں کی رقم ان کی فلاح و بہبود کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کو قرضوں کی واپسی پر خرچ ہوں گے ، حکومت کشمیری مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں دوسو فیصد تک اضافہ کرے ، سودی نظام کا خاتمہ کیا جائے ، امریکہ و یورپ کی بجائے چین اور ترکی سے معاشی و تجارتی تعلقات کو فروغ دیا جائے ، پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے ، پارلیمنٹ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر جمود کا شکار ہے ، اپنی قانون سازی کی جائے کہ صرف مذہب کا نام لینے والوں کو دہشتگرد قرار نہ دیا جائے ۔

(جاری ہے)

وہ جمعہ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بجٹ پر بحث کے دوران خطاب کررہے تھے ۔ انہوں نے کہا کہ قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں حکومتی و اپوزیشن ارکان نے جو تجاویز پیش کی ہیں ، حکومت کو چاہیے کہ انہیں اہمیت دے ، بجٹ صرف اعداد و شمار کا نام نہیں کیونکہ حکومت بجٹ میں پورے سال کی آمدنی و اخراجات کا ایک تخمینہ لگالیتی ہے لیکن اگر زلزلہ یا سیلاب آجائے تو لازمی طور پر حکومتی ترجیحات تبدیل ہو جاتی ہیں ۔

مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ امن کے بغیر مستحکم معیشت کا کوئی تصور موجود نہیں ہمیں یہ بات مد نظر رکھتی چاہیے بالخصوص پاکستان بارے بھارت کا جو رویہ ہے اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے ، حال ہی میں بھارتی وزیراعظم نے پاکستان کو توڑنے میں بھارت کے کردار کا جو اعتراف کیا وہ قابل مذمت ہے ، دراصل بھارت پاکستان کی معیشت کو بحران زدہ بنانے کیلئے جنگ کی جانب کھینچ رہا ہے حالانکہ پاکستان اس خطے میں امن کا داعی ہے کیونکہ اسلام ہمیشہ امن کا درس دیتا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ امریکہ امن کے نام پر پوری دنیا کو اپنے شکنجے میں لینا چاہتا ہے ، وہ افغانستان میں امن قائم کرنے یا اسامہ بن لادن کو تلاش کرنے نہیں بلکہ اپنے مفادات کیلئے آیا تھا آج اس نے وہ آگ ہماری سرحدوں کے اندر دھکیل دی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کشمیری مہاجرین آج بھی اسی پھٹے پرانے خیمے میں رہ رہے ہیں جو انہیں اس وقت فراہم کیا گیا جب وہ یہاں آئے تھے ، کشمیری مہاجرین کے گزارہ الاؤنس میں اضافہ کیا جائے ۔

ان کیلئے کوئی ہاؤسنگ سکیم نہیں ان کیلئے نکاسی آب کا انتظام کیا جائے ۔ انہوں نے جو چار ہزار روپے گزارہ الاؤنس فراہم نہیں کیا جارہا ، معلوم نہیں کیا وجہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے پارلیمنٹ کی ایک کشمیر کمیٹی بنا رکھی ہے تاکہ دنیا کو دکھایا جاسکے کہ ہم مسئلہ کشمیر کو خصوصی اہمیت دیتے ہیں مگر کشمیر کمیٹی کے پاس اختیارات کوئی نہیں ، میرا مطلب ہے کہ کشمیر کمیٹی کے اختیارات میں اضافہ کیا جائے ۔

انہوں نے کہا کہ کشمیری مہاجرین تو دور کی بات صوبہ کے پی کے میں جو لوگ دہشتگردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوئے وہ آج تک اپنے گھروں کو واپس نہیں جاسکے ، کوئی کراچی چلے گئے ہیں اور کوئی کسی اور دوسرے جگہ پر ہیں ، وہ بھی تو اہل وطن ہیں ، حکومت کہتی ہے کہ سوات ، دیر و دگیر مقامات پرامن قائم ہو گیا ہے اگر وہاں امن ہے تو حکومت لوگوں کو واپس کیوں نہیں جانے دیتی ، ان کے راستے کیوں روک رکھے ہیں ، یہ المیہ ہے کہ اس کی اصل حقیقت کوئی بھی جانچنے کی کوشش نہیں کررہا ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان اقتصادی ترقی کے راستے پر چل پڑا ہے جبکہ امریکہ اور مغربی طاقتیں پاکستان کو کبھی اقتصادی ترقی کے راستے پر چلنے نہیں دے گی ۔ انہوں نے ایسے ادارے بنا لئے ہیں جو ہمیں جکڑ کر رکھتے ہیں ۔ اقوام متحدہ سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے کنونشن یہی کردار ادا کرہرے ہیں ، ہم قانون سازی بھی ان کی مرضی سے کرنے پر مجبور ہیں ، ہم جب تک اپنے وسائل پر انحصار نہیں کریں گے ، غلامی سے آزاد نہیں ہوں گے ۔

بدقسمتی سے ہم اپنے وسائلء کو حرکت میں لانے کی بجائے بیرونی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں اور پھر حکومت تقاضا کرتی ہے کہ لوگ ٹیکس ادا کریں ۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کا دیا ہوا ٹیکس عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونے کی بجائے عالمی مالیاتی اداروں کو قرضوں کی واپسی پر خرچ ہوں گے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں نے سودی نظام کے خاتمے کے فیصلے دے رکھے ہیں لیکن حکومت شعوری طور پر سعودی نظام کے خاتمے کی کوششیں نہیں کررہی ہے حالانکہ مغربی ممالک میں سودی نظام کو ختم کیا جارہا ہے اور سود اللہ کے خلاف جنگ کے مترادف ہے ، آخر ھوکمت اسلامی بنکاری کیوں نافذ نہیں کررہی ہے ۔