بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ 25 سال سے سینما گھر بند

یہاں سینما گھروں میں فوج یا فورسز اہلکاروں کے مورچے لگے ہیں 2009 میں اداکارہ جوہی چاولا اور منیشا کوئرالہ کی فلم ’میگھنا‘ کی شوٹنگ سری نگر میں ہوئی

اتوار 14 جون 2015 11:25

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں گذشتہ 25 سال سے سینما گھر بند

سرینگر (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14جون۔2015ء) مقبوضہ کشمیر میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت سے بننے والے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے اقتدار سنبھالتے ہی ممبئی کا رْخ کیا اور وہاں اداکاروں اور فلم سازوں کو کشمیر آنے کی دعوت دی۔اس دعوت کا اثر نمایاں تھا۔ جلد ہی نصف درجن سے زائد فلم یونٹ کشمیر میں خیمہ زن ہو گئے۔ سلمان خان کی نئی فلم بجرنگی بھائی جان‘ کی بیشتر شوٹنگ وادی کے خوبصورت مقامات پر ہوئی۔

کئی دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا کہ واشو بھگنانی کی نئی فلم ’ویلکم ٹو کراچی‘ کشمیر میں شوٹ نہ ہونے کے باوجود یہیں سے پروموٹ کی گئی۔ فلم کے اداکار جیکی بھگنانی اور اداکارہ لورین نے کہاکہ کشمیر کے لوگوں کو بالی وڈ کیساتھ جْڑنا چاہیے۔ یہاں کے لوگ باصلاحیت بھی ہیں اور خوبصورت بھی۔

(جاری ہے)

کئی فلم سازوں نے تو اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ یہاں سینما گھروں میں فوج یا فورسز اہلکاروں کے مورچے لگے ہیں۔

ان ویران عمارتوں میں کبھی بھارتی اور مغربی سینما کی شاہکار فلمیں دکھائی جاتی تھیں۔سرینگر میں کرن نگر کے رہائشی محمد امین کہتے ہیں کہ سینما تو تفریح کے لیے ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ماتم ہے۔ ہزاروں لوگ مارے گئے، ہزاروں لاپتہ ہیں۔ لڑکوں کو پولیس پکڑتی ہے اور کھیتوں میں فوج ہے۔ ہم کیا فلم دیکھیں گے۔ نہیں نہیں، ہم کو سینما کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن بعض حساس حلقوں کو شکایت ہے کہ بھارتی سینما نے کشمیر کے خوبصورت مناظر پر مبنی فلمیں تو بنائیں لیکن ان میں کشمیریوں کی یا تو کردارکْشی کی گئی یا غلط تصویر پیش کی گئی۔ڈل گیٹ علاقے کے شفاعت فاروق کہتے ہیں کہ ہم فلموں میں اپنی زمین یا پہاڑ نہیں دیکھنا چاہتے۔ یہ لوگ تو ہماری کہانی نہیں دکھاتے۔خاور جمشید لائن پروڈیوسر ہیں۔ وہ یہاں آنے والے فلم یونٹوں کی تکنیکی معاونت کرتے ہیں۔

خاور کا کہنا ہے کہ بالی وڈ کا رشتہ کشمیر کے ساتھ مستحکم ہو جائے تو یہ روزگار کا بڑا ذریعہ ثابت ہو گا۔اداکارہ دیپتی نول کہتی ہیں کہ بالی وڈ جان بوجھ کر کشمیر کو نظرانداز نہیں کر رہا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری فلمیں محبت کے قصوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہیرو اور ہیروئن کشمیر آئے، گانا گایا اور چلے گئے۔ اس میں تو کشمیری یا تو شکارا والے یا پھر ٹیکسی ڈرائیور کے طور نظر آئے گا۔

دیپتی نول کہتی ہیں کہ کشمیریوں کو خود آگے آ کر اپنی کہانی تحریر کرنا ہو گی۔یہاں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سکرین پلے لکھنے کے لیے ورکشاپس منعقد کی جا سکتی ہیں۔ جب یہاں سے ایک جاندار کہانی سامنے آئے گی تو پروڈیوسر فلم بنائیں گے۔ پھر آپ کو پردے پر یہاں کے پہاڑ اور جھیلیں ہی نہیں بلکہ یہاں کی زندگی بھی نظر آئے گی۔واضح رہے کہ 25 سال سے یہاں کے سینما گھر بند ہیں اور علیحدگی پسندوں نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ سینما کی بحالی کی مخالفت کریں گے لیکن انٹرنیٹ اور ٹی وی پر یہاں کے نوجوان بھارت اور پاکستان کے ساتھ ایران، ترکی، مشرقی یورپ اور امریکہ کی فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔