Live Updates

جوڈیشل کمیشن،تحقیقاتی کمیشن میں بدلنے کی درخواست مسترد ،12حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرزچھاپنے، فارم 15کا ریکارڈ 24گھنٹے طلب

دھاندلی کی تحقیقات کر رہے ہیں، یہ جوڈیشل نہیں ، انکوائری کمیشن ہے،تحریک انصاف کی درخواست سے مطمئن نہیں ،فارم 15 سے کوئی معاونت نہیں ملی،چیف جسٹس ناصر الملک 12حلقوں میں پنجاب 7 ،کے پی 3 ،سندھ اوراسلام آبادکا11 حلقہ شامل ، مسلم لیگ ن کے کامیاب ارکان 8 ،تحریک انصاف2،جے یوآئی (ف)،جماعت اسلامی کاایک ایک حلقہ شامل موصول شدہ فارم 15 صرف 60 فیصد ، 40 فیصد غائب ہیں،انتخابات اپنی افادیت کھو چکے ،11.5 ملین بیلٹ پیپرز ایکسٹرا چھاپے گئے،حفیظ پیزادہ

پیر 15 جون 2015 19:10

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 15 جون۔2015ء ) عام انتخابات 2013میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل کمیشن نے تحریک انصاف کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کوتحقیقاتی کمیشن میں تبدیل کرنے کی درخواست مستردکردی ،تحریک انصاف نے یہ استدعا جوڈیشل کمیشن کولکھے گئے ایک مراسلے میں کی تھی جبکہ جوڈیشل کمیشن نے قومی اسمبلی کے 12حلقوں میں اضافی بیلٹ پیپرزچھاپنے کے بارے میں فارم 15کاتمام تر یکارڈالیکشن کمیشن سے 24گھنٹوں میں طلب کیاہے ان حلقوں میں پنجاب سے سات ،کے پی کے کے تین ،سندھ سے ایک اوراسلام آباد کے ایک حلقہ شامل ہے ،فارم 15میں مسلم لیگ ن کے کامیاب 8ارکان اسمبلی ،تحریک انصاف کے دو،جے یوآئی (ف)اور جماعت اسلامی کابھی باترتیب ایک ایک حلقہ شامل ہے جبکہ چیف جسٹس ناصر الملک نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ فارم 15 سے غیر استعمال شدہ بیلٹ پیپرز سے متعلق معاونت نہیں ملی ، ان کا کہنا ہے دھاندلی کی تحقیقات کر رہے ہیں ، یہ جوڈیشل کمیشن نہیں ، انکوائری کمیشن ہے ،تحریک انصاف کی درخواست سے مطمئن نہیں ہیں۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ناصر الملک کی زیر صدارت 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی سے متعلق انکوائری کمیشن کا اجلاس ہوا۔ سابق نگران وزیراعلیٰ بلوچستان غوث بخش باروزئی انکوائری کمیشن کے سامنے پیش ہوئے اور کمیشن کو بتایا کہ وہ عام انتخابات 2013 کے دوران نگران وزیر اعلیٰ تھے۔ انہوں نے کہا انہوں نے عام انتخابات کو غیر شفاف قرار نہیں دیا تھا بلکہ یہ کہا تھا کہ بلوچستان میں'استادی'ہوئی ہے۔

چیف جسٹس ناصر الملک نے کہا استادی کا لفظ لکھنے کیلئے انگریزی کا لفظ نہیں ہے ، ہم استادی کے لفظ کو استادی ہی لکھ لیتے ہیں۔ اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا یہ انکوائری نہیں جوڈیشل کمیشن ہے۔ اس پر چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے تحریک انصاف کی درخواست سے مطمئن نہیں۔ یہ انکوائری کمیشن ہے ، جوڈیشل نہیں، دھاندلی کی انکوائری ہو رہی ہے۔

ہم نے اپنی کارروائی سیاسی جماعتوں کی معاونت سے آگے بڑھائی ہے۔ تحریک انصاف کی درخواست پر ملک بھر سے فارم 15 منگوائے گئے۔ پی ٹی آئی کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا متعدد پولنگ سٹیشنز کے فارم 15 نہیں آئے۔ بعض حلقوں میں بہت زیادہ اضافی بیلٹ پیپرز بھجوائے گئے ، ایک کروڑ 10 لاکھ اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے۔ بلوچستان میں کبھی 20 فیصد سے زیادہ ٹرن آوٴٹ نہیں رہا ، عام انتخابات 2013 میں بلوچستان کا ٹرن آوٴٹ 40 فیصد رہا۔

چیف جسٹس ناصرالملک نے اپنے ریمارکس میں کہا فارم 15 سے انکوائری کمیشن کو کوئی معاونت نہیں ملی۔ پیر کے روز جوڈیشل کمیشن کی کارروائی شروع ہوئی تو نگرانی وزیر اعلی بلوچستان نواب غوث سے بی این کے وکیل شاہ خاور نے پوچھا کہ لاء اینڈ آرڈر کو برقرار رکھنے کے لئے آپ کا رابطہ کس سے رہتا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میرا رابطہ چیف سیکرٹری بلوچستان سے رہتا تھا ۔

وکیل نے سوال کیا کہ الیکشن کے بعد کی گئی پریس کانفرنس میں آپ نے کیا کہا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے لاء اینڈ آرڈر کی سیچوئن کو کنٹرول کیا میں نے کہا تھا کہ انتخابات میں میرے بھائی کو ہرایا گیا تو وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ کی نظر میں یہ الیکشن فیئر تھے تو انہوں نے کہا کہ اس پر میں رائے نہیں دے سکتا ۔ فیئر الیکشن کروانا الیکشن کمیشن اور ایڈمنسٹریشن کا کام تھا ۔

پی پی 21 سے میرے بھائی کو ہرایا گیا اس کی وجہ مقامی انتظامیہ اور چیف سیکرٹری کا براہ راست کردار تھا ۔ انہوں نے کہا میں نے اپنی پریس کانفرنس میں دھاندلی زدہ الیکشن کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ میں نے کہا تھا کہ انتخابات میں استادی کی گئی ہے ۔ اس پر وکیل نے پوچھا کہ کیا گورنر نے آپ کو کوئی سمری بھیجی تھی تو بتایا کہ نہیں ۔ الیکشن کمیشن پابندی لگائی تھی کہ کوئی تبادلہ یا پوسٹنگ نہیں ہو سکتی ۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس کے بعد کوئی پوسٹنگ کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ۔ جب استادی کی گئی تو میں نے کچھ لوگوں کو ٹرانسفر کیا ۔ وکیل نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ آپ کو لاعلم رکھتے ہوئے کچھ لوگوں کو ٹرانسفر کیا تو نواب غوث نے بتایا کہ ہاں چھوٹے لیول پر ایسا ضرور ہوا ہے ۔ وکیل نے پوچھا کہ اعلی سطحی پوسٹنگ میں آپ نے اپنی رائے کو ترجیح دی یا آپ پر دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے چیف سیکرٹری کی ایڈوائس پر ٹرانسفر اور پوسٹنگ کی ۔

وکیل نے پوچھا کہ این اے 269 کا آر او کون تھا تو بتایا کہ مجھے معلوم نہیں ۔ میرا کام لا اینڈ آرڈر کو دیکھنا تھا آپ کے یہ سوالات الیکشن کمیشن اور مقامی انتظامیہ سے متعلق ہیں ۔ نواب غوث سے جرح کرتے ہوئے ( ن ) لیگ کے وکیل شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے بھائی کے الیکشن ہارنے پر پٹیشن دائر کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ہم نے پٹیشن دائر کی تھی لیکن وہ خارج ہو گئی اس کے بعد ہم نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہوا ہے ۔

ڈسٹرکٹ ریٹئرننگ آفیسر مراد علی سے جرح کرتے ہوئے شاہ خاور نے پوچھا کہ الیکشن 2013 میں آپ کہاں تھے تو انہوں نے بتایا کہ میں پی پی 42 اور 43 کا ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر تھا ۔ وکیل نے پوچھا کہ کیا 13 مئی کو امیدواران نے آپ سے ملاقات کی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ہاں الیکشن والے دن تمام امیدوار مجھ سے ملنے آئے تھے اور مذکورہ حلقوں سے الیکشن کی تاریخ کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ متعلقہ آر اوز کو درخواست کریں ۔

متعلقہ آر اوز نے صوبائی الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ الیکشن آج نہیں ہو سکتے لہذا تاریخ آگے بڑھائی جائے ۔ وکیل نے پوچھا کہ الیکشن والے دن کتنی پولنگ ہوئی تھی تو انہوں نے بتایا کہ ٹاؤن ایریاز میں پولنگ ہوئی لیکن دیہی علاقوں میں پولنگ نہیں ہوئی ۔ 72 میں سے 36 پولنگ سٹیشنز پر پولنگ نہیں ہوئی ۔ میر پراچہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے صوبائی الیکشن کمیشن کو اس صورت حال سے آگاہ کیا تھا تو انہوں نے کہا کہ ہاں ہم نے صوبائی الیکشن کمیشن کو تمام تر صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا ۔

شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آر اوز نے متعلقہ حلقوں کا رزلٹ دے دیا تھا جس پر انہوں نے کہاکہ ہاں آر اوز نے دونوں حلقوں کا رزلٹ دے دیا تھا اور دونوں حلقوں سے بلوچستان نیشنل پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے ۔ شکیل احمد سے جرح کرتے ہوئے وکیل نے پوچھا کہ مذکورہ حلقے سے 69 پولنگ سٹیشنز سے کتنے فارم 15 موصول ہوئے تو انہوں نے بتایا کہ 29 فارم 15 موصول ہوئے تھے ۔

54 تھیلے سیل تھے جبکہ 15 تھیلے سیل نہیں تھے کیا یہ درست ہے کہ تو آر او نے بتایا کہ نہیں یہ الزام ہے پورے 69 تھیلے سیل تھے اور اس حلقہ سے رضا محمد جیتے تھے جن کے ووٹ 5345 تھے جبکہ ہارنے والے امیدوار اختر حسین کے ووٹ 5191 تھے ۔ وکیل نے پوچھا کہ متعلقہ حلقے کے کچھ لفافے غائب تھے تو انہوں نے بتایا کہ جو لفافے غائب تھے وہ قومی اسمبلی پولنگ بیگ میں چلے گئے ۔

شاہد حامد نے پوچھا کہ کیا آپ نے نتائج مرتب کر لئے تھے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ۔ نصیر احمد جرح کرتے ہوئے منیر پراچہ نے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنے حلقے کا رزلٹ دیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ میں نے سرکاری نتیجہ مرتب نہیں کیا تھا میں نے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کا اعلان کیا تھا کیونکہ مجھے سرکاری رزلٹ مرتب کرنے پر دھمکیاں مل رہی تھیں اس لئے میں نے الیکشن کمیشن کو لکھا کہ میری جگہ کسی دوسرے افسر کو تعینات کیا جائے جو سرکاری رزلٹ دے سکے ۔

تو میرے بعد اسسٹنٹ کمشنر ضلع خضدار کو ریٹئرننگ آفیسر بنایا گیا ۔ اکرم اللہ سے جرح کرتے ہوئے شاہ خاور نے پوچھا کہ پولنگ سکیم آپ کو کب ملی تو انہوں نے بتایا کہ مجھے تاریخ یاد نہیں ۔ وکیل نے پوچھا کہ کیا آپ نے 9 مئی کو الیکشن سٹاف تعینات کر دیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ نہیں میں نے 10 مئی کو الیکشن سٹاف کو تعینات کیا اس سے قبل دو مرتبہ پولنگ سٹاف کا اعلان کیا تھا لیکن ٹیچرز ایسوسی ایشن ، کلرک ایسوسی ایشن ، لیکچرار ایسوسی ایشن کے احتجاج کی وجہ سے ہمیں متعلقہ سٹاف نہیں مل سکا ۔

وکیل نے پوچھا کہ آپ نے تمام امیدواروں کو مطلع کیا تھا کہ آج الیکشن نہیں ہو سکیں گے تو انہوں نے بتایا کہ ہاں ۔ وکیل نے پوچھا کہ الیکشن کے بعد کیا آپ نے رزلت کا اعلان کیا تھا تو انہوں نے بتایا کہ ہاں مجھے 43 میں سے 21 پولنگ سٹیشن کے رزلٹ موصول ہوئے تھے محمد نور سے جرح کرتے ہوئے شاہ خاور نے پوچھا کہ آپ کو کب تعینات کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے الیکشن کے دن صبح 8 بجے اسسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر تعینات کیا گیا ۔

دن 12 بجے پولنگ سٹیشن پر پولنگ سے متعلق سامان بھجوایا گیا اور وقت ختم ہونے پر کوئی ووٹرز پولنگ سٹیشن پر نہ آیا ۔ مراد علی جرح کرتے ہوئے شاہ خاور نے پوچھا کہ آپ کو کب پولنگ آفیسر بنایا گیا تو انہوں نے بتایا کہ مجھے انتخابات والے دن صبح 8 بجے پولنگ آفیسر تعینات کیا گیا ۔ پہلے سٹیشن بند تھا ۔ ڈیڑھ بجے پولنگ سٹیشن کا تالہ کھلا اور پولنگ کا سامان لایا گیا لیکن شام تک کوئی ووٹرز نہیں آیا ۔

شاہ خاور نے کہا کہ ہمارے ایک انتہائی اہم گواہ عبدارسول ہیں جن کے پاس اہم ویڈیو ریکارڈنگ ہے جس میں یہ دکھایا گیا ہے کہ پولنگ سٹیشن کے باہر بیگ دوبارہ کھولے گئے اور ان کو پھر سے سیل کیا گیا ۔ عدالت نے پوچھا کہ یہ شخص الیکشن میں کیا تھا تو وکیل نے بتایا کہ یہ شخص الیکشن سے متعلقہ نہیں ۔ یہ شخص وہاں نائب قاصد تھا عدالت نے ویڈیو دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ ویڈیو عدالت کا وقت ضائع کرنے کے مترادف تھی ۔

تمام ریٹرننگ آفیسران کو بیگ سیل کرنے کا یہی طریقہ کار ہے ۔ اس لئے آپ کی درخواست کو مسترد کیا جاتا ہے ۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے وکیل نے کچھ اور گواہان کو بلانے کی استدعا کی جس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے جن کو بلانا تھا بلا چکے ہیں ۔ رؤف نامی شخص نے عدالت سے کہا کہ ہمارے گواہان کو بلایا جائے ۔ جوڈیشل کمیشن ہمیں انصاف مہیا کرے اور بلوچستان میں ہوئی دھاندلی کو بے نقاب کرے جس پر عدالت نے کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں تو وہ عدالت کو بتائیں عدالت میں تقریر نہ کی جائے ۔

جس پر اس شخص نے کہا کہ عدالت اگر ہمارے گواہان نہیں بلاتی تو ہم اپنی درخواست واپس لے لیتے ہیں اس پر عدالت نے کہا کہ آپ اپنی درخواست واپس لے لیں ۔ حفیظ پیرازہ کو عدالت نے کہا کہ فارم 15 اور نادرا رپورٹ منگوائی جا چکی ہے جس پر حفیظ پیزادہ نے کہا کہ فارم 15 سے متعلق مجھے علم نہیں ۔ ابھی تک موصول شدہ فارم 15 صرف 60 فیصد ہیں اور 40 فیصد غائب ہیں ۔

جس پر انتخابات اپنی افادیت کھو چکے ہیں الیکشن پلان میں بھی خامیاں تھیں ۔ الیکشن کا میٹریل ٹھیک طرح سے پولنگ سٹیشن تک نہیں پہنچایا گیا ۔ 11.5 ملین بیلٹ پیپرز ایکسٹرا چھاپے گئے ۔ اس لئے ہم نے درخواست کی کہ جوڈیشل کمیشن کو تحقیقاتی کمیشن میں تبدیل کیا جائے ۔ جس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے آپ کے کہنے پر فارم 15 اور نادرا کی پری سیکنینگ رپورٹ منگوائی گئی ۔

اب آپ کیا چاہتے ہیں ۔ جوڈیشل کمیشن نہیں یہ انکوائری کمیشن ہے ہم اسے تحقیقاتی کمیشن میں تبدیل نہیں کر سکتے ۔ پیرزادہ نے کہا کہ اگر ہماری شمولیت ضروری نہیں تو بتا دیں ہم نہ آئیں ۔ اس پر عدالت نے کہا کہ آپ کی سب کی شمولیت ضروری ہے۔ عدالت نے کہا کہ فارم 15 کو مرتب کرنے کے لئے مسترد شدہ بیلٹ پیپر اور فارم 14 کی مدد لی جا سکتی ہے ۔ پیزادہ نے کہا کہ رزلٹ مرتب کرنے میں تھیلوں کو چیک کرنا لازمی ہوتا ہے فارم 15 کے بغیر آر اوز رزلٹ مرتب نہیں کر سکتے ۔

کئی حلقوں سے فارم 15 موجود نہیں ہے ان کا رزلٹ کیسے مرتب کیا گیا ۔ تھیلوں کی پیکنگ پر پریذائیڈنگ آفسر کے دستخط موجود نہیں ہیں ۔ 9 ملین تک ایکسٹر بیلٹ پیپرز کا ریکارڈ موجود نہیں ہے جن کا ریکارڈ موجود نہیں ہے آر اوز کی ذمہ داری ہے وہ بیلٹ پیپر کا موازنہ کر کے رزلٹ مرتب کرتے ۔ عدالت نے پوچھا کہ پریذائیڈنگ آفیسر فارم 15 واپس نہ کرے تو اس کا کیا متبادل ہے ۔

تو پیرزادہ نے کہا کہ بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی رسید اور فارم 15 رزلٹ مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ عدالت نے پوچھا کیا آپ نے پری سکیننگ رپورٹ دیکھی ہے تو آپ کو اس سے کیا معلومات حاصل ہوئیں ۔ اس پر بتایا کہ عمران خان کے حلقے میں ایک لاکھ 80 ہزار بیلٹ پیپرز ایکسٹرا چھاپے گئے ۔ پری سکیننگ کا عمل بہت مہنگا ہے ۔ عدالت نے کہا کہ فارم 15 سے رزلٹ نکالنے ہیں تو آپ نیا رزلٹ کیسے اخذ کر لیا ۔

ابھی تو کئی حلقوں سے فارم 15 موصول نہیں ہوئے ۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا ہمیں ایکسٹرا بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے حوالے سے آر اوز کو بلانا چاہئے ۔ شاہد حامد نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ تمام حلقوں کی نادرا پری سکیننگ رپورٹ بنوانی چاہئے ۔ شاہد حامد نے کہا کہ ہم نے 35 حلقوں کی نادرا سکیننگ رپورٹ کے لئے درخواست دی تھی جن میں سے 22 حلقوں کے لئے مانا گیا ۔

اس پر عدالت نے کہا کہ یہ الیکشن ٹریبونل نہیں جوڈیشل کمیشن ہے ۔ ہم نادرا کو سکیننگ رپورٹ کے لئے حکم نہیں دے سکتے اس کے لئے آپ کو الیکشن ٹریبونل جانا ہو گا ۔ شاہد حامد نے بتایا کہ پنجاب کے مختلف حلقوں میں 10 سے 35 فیصد تک ایکسٹرا بیلٹ پیپر چھاپے گئے ان حلقوں میں این اے 117 میں 21فیصد، 125 میں فیصد28، 118 میں 17 فیصد، 53 میں 19 فیصد، 43 میں 10 فیصد، 34 میں 10 فیصد، 21 میں 10 فیصد ، 130 میں 33 فیصد، 157 میں 20 فیصد، 171 میں 17 فیصد اور 222 میں 10 فیصد ہیں۔ جن میں 10 فیصد سے 33 فیصد تک ایکسٹرا بیلٹ پیپرز چھاپے گئے عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو پنجاب کے حلقوں سے فارم 15 کی رپورٹ کل تک جمع کروانے کا حکم دیتے ہوئے جوڈیشل کمیشن کی کارروائی ملتوی کر دی ۔

Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات