وفاقی اور صوبائی بجٹ میں زرعی شعبہ کو نظر انداز کیا گیا، پنجاب بجٹ سڑکوں،نہروں،لائیو سٹاک،اور زرعی مشینری کیلیے کسانوں کے نام پر رکھے گئے اربوں روپے کا فائدہ ٹھیکیداروں،صنعتکاروں ،جاگیرداروں اور کمیشن مافیا کو پہنچے گا

مرکزی صدر کسان بورڈ پاکستان صادق خاں خاکوانی کا حالیہ مرکزی اور صوبائی بجٹ پر تحفظات کا اظہار

اتوار 28 جون 2015 16:23

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 28 جون۔2015ء) مرکزی صدر کسان بورڈ پاکستان صادق خاں خاکوانی نے حالیہ مرکزی اور صوبائی بجٹ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ زرعی مداخل، زرعی ادویات، بجلی پر کوئی سبسڈی نہیں دی گئی جب تک حکمران زراعت کو اپنی ترجیحات میں پہلے نمبر پر نہیں رکھیں گے اس وقت تک ملکی معیشت میں کبھی بہتری نہیں آسکتی۔ انھوں نے مزید کہا کہ زراعت ہی کی بدولت صنعتوں کا پہیہ رواں دواں ہے۔

حکومت اپنی ترجیحات کا ازسرنو تعین کرے اور ملک کی دوتہائی آبادی جس کا دارومدار بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے شعبے سے ہے اسے نظر انداز کرنا اور اس شعبے کو ترجیحات میں شامل نہ کرنا سماجی اور معاشی اعتبار سے بھی قابل مذمت ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت نے کسانوں کو کمزور کرنے کی پالیسیاں اپنا رکھیں ہیں زرعی قرضہ جات پر سود ختم کرنے کا اعلان کیا جائے۔

(جاری ہے)

انہوں نے پنجاب میں سڑکوں کی تعمیر کیلیے رکھے گئے 52 ارب روپے پر تبصرہ کرتے کہا کہ اس میں سے 25 فی صد رقم اپنے چہیتے کمیشن مافیا کو نوازنے کیلیے خرچ ہوگی اور بقیہ رقم سے اپنے اسمبلی ممبران کے ڈیروں اور فارموں کو جانے والی سڑکوں کو بنایا جائے گا جبکہ عام کسانوں کے استعمال میں آنے والی فارم ٹو مارکیٹ کی سڑکوں کا برا حال ہی رہے گا۔نہروں ،بیراجوں ،پشتوں کیلیے رکھے گئے 46.4 ارب روپے بھی محکمہ انہار کے چہیتے ٹھیکیداروں ،کرپٹ افسران کی جیبوں میں جائیں گے ، دریاؤں میں ہی اگر پانی نہیں ہوگا تو نئی نہریں اور کھال بنانے کا کیا فائدہ؟کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس خطیر رقم کو کالاباغ ڈیم اور دوسرے ڈیم بنانے پر خرچ کیا جاتا اور ٹیوب ویلوں کیلیے بجلی پر سب سڈی دیکر فلیٹ ریٹ مقرر کیے جاتے تاکہ پانی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا۔

گرین ٹریکٹر ،زرعی جدید مشینری،لائیو سٹاک کیلیے رکھے گئے دس ارب روپے سے بھی عام کسان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔قرعہ اندازی کا ڈرامہ رچا کر سستے ٹریکٹر اور مشینری بھی اپنے منظور نظرافراداورمتوالوں کو دی جائے گی۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر اس رقم سے زرعی مشینری اور ٹریکٹر کی قیمتیں کم کرنے پر خرچ کیا جاتا تاکہ ہر کسان کو اس سے فائدہ پہنچتا۔

انھوں نے ارکان اسمبلی سے اپیل کی کہ کسان کش بجٹ منظور نہ کریں اور اپوزیشن اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ حکومت کی طرف سے زرعی لوازمات پر سیلز ٹیکس ختم نہ کرنے اورڈیموں کی ترقی کے لیے مناسب فنڈ نہ رکھنے سے کاشت کار کمیونٹی حکومت سے مایوس ہوئی ہے اور اگر حکومت کسانوں کے ساتھ مخلص ہے تو زرعی قرضہ جات پر سود کو ختم اور زرعی ٹیوب ویل کے لیے بجلی کے فلیٹ ریٹ مقرر کرے۔