‘غربت و افلاس پر قابو پانے اورموسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے ٹھو س اقدا ما ت اٹھا نا ہو ں گے ،سینیٹر مشاہد اللہ

پیر 29 جون 2015 14:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 29 جون۔2015ء)وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی، سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے خطرات سے ایشیا پیسفک خطے میں تیزی سے ہونے والی معاشی ترقی، غربت اور افلاس میں اضافے ہونے کے امکانات انتہائی قوی طور پر موجود ہیں۔ تاہم ان خطرات سے نمٹنے کے لیے مختلف معاشی اور سماجی شعبوں، خاص کر زراعت، پانی، توانائی، تعلیم اور صحت، میں مطابقت پذیری یا اڈاپٹیشن کے مختلف منصبوے بناکر اس معاشی ترقی کی رفتار اور غربت گھٹاو منصوبوں کو موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچایا یا ان میں خاطرخواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔

وفاقی وزار ت برائے موسمیاتی تبدیلی سے جاری ہونے والے بیان میں مشاہداللہ خان نے پاکستان سمیت ایشیا ئی پئسفک ممالک کے معاشی ماہرین پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے ممالک کی معاشی ترقی کے منصوبے موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں عام ہوتے ہوئے قدرتی آفات کے تناظر میں بنائے۔

(جاری ہے)

تاکہ معاشی ترقی کی رفتار اور غربت و افلاس، شرح خواندگی اور صحت سہولتوں میں بہتری کے لیے اقدامات سیلاب سمیت مختلف موسمی تباہ کاریوں سے متاثر نہ ہوسکے۔

اگلے ہفتے جاری ہونے والی ایشیئن ڈوولپمنٹ بئنک کی ایشیا پیسفک خطے میں موسمیاتی تبدیلی کے غربت گھٹاو کے لیے کیے گئے اقدامات پر منفی اثرات پر تفصیلی سروے رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا ہے کہ غربت و افلاس پر قابو پانے کے لیے موسمیاتی خطرات سے نمٹنے کے لیے خطے کے تمام ممالک کو مختلف معاشی ترقی کے منصوبوں کی بجٹوں میں خاطر خواہ اضآفہ کرنا ہوگا۔

مشاہد اللہ خان نے مزید کہا کہ ان یشیا پئسیفک ممالک میں دنیا کے ایک تہائی یا سات سو تینتالیس غریب لوگ بستے ہیں، جن میں سے زیادہ لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت اورمال مویشی پالنے سے منسلک ہے۔ تاہم، شدید موسمی خطرات سے لاحق اس خطے میں بہتر اور پائیدار منصوبہ بندی کے ذریعے زراعت،آبپاشی، لائیواسٹاک، توانائی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ان موسمی خطرات کو برداشت کرنے کی قوت پیداکرناہوگی۔

تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف، جن میں غربت مکاوکے اہداف بھی شامل ہیں، کیے جاسکیں۔ انہوں نے کہا کہ تازہ جاری ہونے والی گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق گذشتہ ۲۱ سالوں میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہونے والی تباہ کاریوں سے متاثر ہونے والے دنیا کے ٹاپ ٹین میں سے پانچ ممالک پاکستان، بنگلادیش، میانمر، فلپائن اور ویٹنام اسی ایشیائی پئسفک خطے میں موجود ہیں، جن کوان قدرتی آفات کی وجہ سے تقریباً ایک سو بلین ڈالرز سے زائد کا معاشی نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔

مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اقوام متحدہ کی حال ہی میں جاری ہونے والی ایک سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایشیا پئسف خطے میں دنیا میں ہونے والی تازہ ۰۰۱ میں ۸۳ قدرتی آفات اسی خطے میں ہوتی ہیں۔ تاہم انہوں نے خطردار کیا کہ اگر قدرت آفات کے انے لوگوں کے زندگی اور انے کے ذرائع آمدن کو نہیں بچایا گیا توغربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں میں آنے والے کچھ سالوں میں بے پناہ اضافہ ہوسکتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار متاثر ہوسکتی ہے۔

سینیٹر مشاہد اللہ خان نے اس بات پر زور دیا کہ وہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اور ان کے اثرات کو کم کرنے کے لیے تعمیراتی اور پبلک انفرااسٹرکچرکے ایسے منصوبے متعارف کرائے جو سیلاب اور طوفانوں جیسی عام ہوتی ہوئی قدرتی آفات کو برداشت کرسکے یا ان کو جیھل سکیں۔ اس کے علاوہ، زرعی، آبپاشی، صحت، تعلیم جیسے شعبوں کو بھی پائیدار بناکر ان اہم معاشی اور سماجی شعبوں کو قدرتی آفات کے اثرات سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے ان شعبوں میں خطے کی تمام حکومتوں کو سرمایا کاری میں اضافہ کرنا ہوگی