انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، جوڈیشل انکوائری کمیشن کا اجلاس کل تک ملتوی

منگل 30 جون 2015 16:04

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جون۔2015ء) عام انتخابات میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کرنے والے جوڈیشل انکوائری کمیشن میں تحریک انصاف کے وکیل حفیظ پیرزادہ نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نادرا رپورٹ کے مطابق 20,20 ہزار بوگس ووٹ ڈالے گئے‘ تصاویر والی ووٹر لسٹوں کے ہوتے ہوئے بھی بوگس ووٹ ڈالے گئے‘ غیر قانونی کارروائیاں روکنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘ نتائج مرتب کرتے وقت قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں‘ انتخابی ریکارڈ محفوظ رکھنے میں غفلت کی سزا دو سال ہے‘ انتخابی ریکارڈ کو محفوظ نہ رکھنا فوجداری جرم ہے غفلت پر کتنے پریذائیڈنگ افسروں کو سزا ہوئی‘ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق انتخابات کرانے میں ناکام رہا‘ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ پریذائیڈنگ افسران کے خلاف کارروائی کے لئے ثبوت ہونا ضروری ہیں‘ فارم 15 پورے ملک میں گم ہے‘ اضافی بیلٹ پیپرز والے حلقوں اور فارم پندرہ کا آپس میں تعلق بتایا جائے۔

(جاری ہے)

منگل کو عام انتخابات 2013 میں مبینہ انتخابی دھاندلیوں سے متعلق جوڈیشل انکوائری کمیشن کا اجلاس ہوا چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں تین رکنی کمیشن نے سماعت کی۔ سماعت کے دوران تحریک انصاف کے وکیل عبدالحفیظ پیرزادہ نے دوسرے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پولنگ سکیم میں خامیاں تھیں بلوچستان میں الیکشن نہیں سلیکشن ہوئی کئی پولنگ سٹیشنز پر نہ ووٹر تھے اور نہ ہی پولنگ کا عملہ‘ ووٹ لینے والے عوامی نمائندے منتخب ہوگئے۔

جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ کسی پولنگ سٹیشن پر پولنگ نہیں ہوئی تو اس میں الیکشن کمیشن کیا کرسکتا ہے ووٹرز ووٹ ڈالنے نہیں آئے تو الیکشن کمیشن کا کیا قصور ہے؟ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا تھا کہ الیکشن ٹریبونل کے فیصلوں کی نقول پیش کریں گے حفیظ پیرزادہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ خواجہ سعد رفیق کے حلقے 125 میں اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے حفیظ پیرزادہ نے این اے 125 کے آر او کا بیان پڑھ کر بھی سنایا اور کہا کہ حیران ہوں الیکشن ٹریبونل کے پاس کیسے انتخابی مواد تک رسائی حاصل ہے ڈسٹرکٹ آفیسر لاہور سے جو فارم حاصل کئے ان پر پریذائیڈنگ آفیسر کے دستخط نہیں بہت سے فارم ایسے ہیں جن پر پریذائیڈنگ کے ساتھ ساتھ ریٹرننگ افسر کے دستخط نہیں۔

اضافی بیلٹ پیپرز اور زائد ووٹوں کے لئے آر اوز اور الیکشن کمیشن ذمہ دار ہیں این اے 125میں 75فیصد فارم پندرہ غائب اور تیس تھیلے ہی نہیں ملے۔ حفیظ پیرزادہ نے پنجاب کے مختلف حلقوں کے فارم پندرہ کی رپورٹ بھی کمیشن میں پڑھ کر سنائی اور کہا کہ این اے 125کے آر اوز نے 61800 بیلٹ پیپرز جمع نہیں کرائے الیکشن تریبونل نے این اے 125کا الیکشن کالعدم قرار دیا اس حلقے سے متعلق اپیل سپریم کورٹ میں ہے۔

فارم 14 اور 15 کی جانچ پڑتال کرنا ریٹرننگ آفیسر کی ذمہ داری تھا این اے 34کے تھیلوں سے ملنے والے فارم پندرہ خالی بھی نکلے تھیلوں سے برآمد اور آر اوز سے حاصل فارم پندرہ میں تضاد ہے۔ این اے 125میں ایک لاکھ بیس ہزار اضافی بیلٹ پیپرز چھاپے گئے جن کی ذمہ دار آر اوز اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر ہیں این اے 125میں مجموعی طور پر پانچ لاکھ پچاس ہزار بیلٹ پیپر بھیجے گئے اس حلقے میں دو لاکھ چھبیس ہزار ووٹ کاسٹ ہوئے این اے 125 میں فارم پندرہ کی گمشدگی کی شرح 75فیصد ہے جبکہ این اے 119 کے پولنگ سٹیشنز پر سو فیصد پولنگ ہوئی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ این اے 119 پولنگ سٹیشن پر رجسٹرڈ ووٹرز 603 تھے اس پولنگ سٹیشن پر بھی 561 ووٹ کاسٹ کئے گئے تھے۔ حفیظ پیرزادہ نے کہا کہ یہ تقریباً سو فیصد پولنگ بنتی ہے این اے 119کے 77فیصد فارم پندرہ غائب ہیں۔ بلوچستان میں بھی انجینیئرڈ الیکشن ہوا چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں انجینیئرڈ الیکشن ہوا آپ ہمیں اس کے ثبوت فراہم کریں حفیظ پیرزادہ نے کہا این اے 21کے پولنگ سٹیشن 61کے فارم پندرہ پر نہ دستخط ہیں اور نہ ہی تاریخ پولنگ سٹیشن نمبر84 کے فارم پندرہ اور پیکنگ انوائس میں تضاد ہے۔

ریٹرننگ افسر نے خود کہا کہ انہیں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کے لئے ہدایات نہیں ملیں۔ این اے 171کے ریٹرننگ آفیسر کو یہ بھی علم نہیں تھا کہ کتنے ووٹ ڈالے گئے‘ این اے 184 میں ڈیمانڈ سے پچاس ہزا سے زائد بیلٹ پیپرز بھجوائے گئے الیکشن کمیشن نے ریٹرننگ افسران نے فارم پندرہ کا مطالبہ نہیں کیا۔ پولنگ سٹیشنز پر 35ملین بیلٹ پیپرز کا استعمال نہیں ہوا قانون کے مطابق ریٹرننگ افسر اپنے پاس بیلٹ پیپر رکھنے کا مجاز نہیں۔

قانون کے مطابق بیلٹ پیپرز اور ان کا ریکارڈ رکھنا پریذائیڈنگ آفیسر کا کام ہے۔ صوبائی اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے بے جا مداخلت کی کسی بھی سطح پر کسی کا کوئی احتساب نہیں ہوا۔ نادرا رپورٹ کے مطابق 20,20 ہزار بوگس ووٹ ڈالے گئے‘ تصاویر والی ووٹر لسٹوں کے ہوتے ہوئے بھی بوگس ووٹ ڈالے گئے‘ غیر قانونی کارروائیاں روکنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے‘ نتائج مرتب کرتے وقت قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں‘ انتخابی ریکارڈ محفوظ رکھنے میں غفلت کی سزا دو سال ہے‘ انتخابی ریکارڈ کو محفوظ نہ رکھنا فوجداری جرم ہے غفلت پر کتنے پریذائیڈنگ افسروں کو سزا ہوئی‘ الیکشن کمیشن قانون کے مطابق انتخابات کرانے میں ناکام رہا‘ چیف جسٹس ناصر الملک نے ریمارکس دیئے کہ پریذائیڈنگ افسران کے خلاف کارروائی کے لئے ثبوت ہونا ضروری ہیں‘ فارم 15 پورے ملک میں گم ہے‘ اضافی بیلٹ پیپرز والے حلقوں اور فارم پندرہ کا آپس میں تعلق بتایا جائے۔