خوردنی تیل میں خودکفالت کے ذریعے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کی بچت ممکن ہے‘میاں زاہد حسین

منگل 30 جون 2015 22:34

کراچی ۔ 30 جون (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جون۔2015ء) پاکستان بزنس مین اینڈ انٹلیکچولز فورم و آل کراچی انڈسٹریل الائنس کے صدر اور سابق صوبائی وزیر میاں زاہد حسین نے کہا ہے کہ خوردنی تیل میں خود کفالت کے ذریعے سالانہ ڈھائی ارب ڈالر کا زرمبادلہ بچایا جا سکتا ہے، قیام پاکستان کے بعد 13 سال تک ملک خوردنی تیل کے معاملہ میں خود کفیل تھا جس کے بعد درآمد شروع ہوئی اور اب مقامی تیل کی پیداوار کھپت کا ایک تہائی ہے جس نے خوردنی تیل کو پٹرولیم مصنوعات کے بعد دوسری بڑی امپورٹ بنا دیا ہے جس میں سے 90 فیصد حصہ پام آئل کا ہے۔

منگل کو جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق میاں زاہد حسین نے کہا کہ روغنی بیج کے کاشتکار آڑھتیوں کے رحم و کرم پر ہیں جبکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں قیمتیں گرنے سے ان کا استحصال کیا جاتا ہے جس وجہ سے ان کی دلچسپی کم ہو رہی ہے، ملک کو خوردنی تیل کی پیداوار میں خود کفیل بنانے کیلئے زیر کاشت رقبہ میں ترغیبات کے ذریعے اضافہ کیا جا سکتا ہے جس کے لئے سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی سب سے مناسب ہے، اس کے علاوہ معیاری بیجوں اور دیگر مداخل کی بروقت فراہمی اور ان کی پیداوار کی مناسب قیمت میں فروخت، اس شعبہ میں ریسرچ، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال، سویا بین اور پام آئل پر امپورٹ ڈیوٹی میں اضافہ، آئل ملز کی استعداد بہتر بنانا شامل ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ آئل ملز میں پسائی کے پرانے طریقوں کے استعمال سے سالانہ 2 لاکھ ٹن بنولے کا تیل ضائع ہو جاتا ہے، چاول کے بھوسہ میں 15 فیصد تیل ہوتا ہے، 2 لاکھ ٹن چاول کے چوکر سے سالانہ 30 ہزار ٹن تیل کشید کیا جا سکتا ہے جبکہ آئل سیڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کو با اختیار بنانے، امدادی قیمت کا تعین کرنے اور کاشتکاروں کو بلا سود قرضے دینے سے اس شعبہ کی ترقی یقینی ہو جائے گی۔

میاں زاہد حسین نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت ملکی ضرورت کا ایک تہائی خوردنی تیل پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی درآمد کرنا پڑتا ہے، پاکستان میں ہر فرد سالانہ12 تا 13 لیٹر خوردنی تیل استعمال کرتا ہے جس کی کھپت میں سالانہ 3 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جس پر توجہ نہیں دی گئی تو سالانہ درآمد سوا 2 ملین ٹن اور ڈیمانڈ سوا 3 ملین ٹن سے بڑھ جائے گی جس سے امپورٹ بل مزید بڑھ جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ سورج مکھی سے 40 سے 48 فیصد تیل نکالا جا سکتا ہے جبکہ سرسوں سے 32 فیصداور کپاس کے بیج سے 10 سے 12 فیصدتیل کشید کیا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں نئی اور جدید ریفائنریاں لگانے کی ضرورت ہے جس سے پراسسنگ کی استعداد، کوکنگ آئل کی کوالٹی، حکومتی آمدنی اور روزگار میں بھی اضافہ ہو گا اور ایک تخمینے کے مطابق اس کاروبار سے وابستہ افراد کی تعداد میں 10لا کھ تک اضافہ ممکن ہو گا جس سے ایک طرف زر مبادلہ کی بچت ہو گی تو دوسری طرف روزگار میں اضافہ سے ملک میں خوشحالی آئے گی اور حکومت پر نوکریاں فراہم کرنے کے حوالے سے دباؤ میں کمی ممکن ہو گی۔

متعلقہ عنوان :