’افغان جنگجو دولت اسلامیہ کی قیادت سے رابطے میں ہیں، امریکی فوجی کمانڈر

دولت اسلامیہ کے اہم گروپ سے منسلک ویب سائٹ کے بعض حصے ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کے لیے مخصوص

منگل 30 جون 2015 22:57

کابل(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 30 جون۔2015ء)افغانستان میں کام کرنے والے ایک سینیئر امریکی فوجی کمانڈر کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دولت اسلامیہ سے منسلک جنگجو شام میں اس شدت پسند تنظیم کی قیادت سے رابطے میں ہیں۔دولت اسلامیہ کے اہم گروپ سے منسلک ویب سائٹ کے بعض حصے ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کے لیے مخصوص ہیں افغان سپیشل فورس کو تربیت دینے والی ایک اکائی کے سربراہ جنرل شان سوئنڈل نے کہا کہ غیر مطمئن طالبان جنگجووٴں نے ایک ’فرینچائز‘ قائم کر لی ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ دولت اسلامیہ افغانستان میں اس قدر سنجیدہ نہیں ہے جس قدر وہ لیبیا یا عراق میں ہے۔حالیہ ہفتوں کے دوران مشرقی افغانستان میں نئے گروپ اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں۔

(جاری ہے)

طرفین نے اتحاد کی اپیل کو مسترد کر دیا اور جنگ ننگرہار صوبے کے کئی اضلاع میں پھیل گئی جو کہ تورا بورا کے غاروں والے علاقے سے زیادہ دور نہیں جہاں کبھی القاعدہ کے سابق رہنما اسامہ بن لادن چھپے تھے۔

دولت اسلامیہ کے اہم گروپ سے منسلک ویب سائٹ کے بعض حصے اب مکمل طور پر ’خراسان میں دولت اسلامیہ‘ کے لیے مخصوص ہیں۔ خیال رہے کہ خراسان افغانستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کا پرانا نام ہے۔گذشتہ دنوں افغانستان کے سابق طالب جنگجو اور غیر مطمئن عناصر نے دولت اسلامیہ کی بیعت لی تھیاسی ویب سائٹ پر ایک حالیہ بیان میں طالبان جنگجووٴں کو دولت اسلامیہ میں شامل نہ ہونے کی صورت میں موت کی دھمکی دی گئی ہے۔

اس پوسٹ میں کہا گیا ہے: ’آپ دولت اسلامیہ سے جنگ کیوں کر رہے ہیں؟ کیا آپ اپنی قبر خود کھودنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا سر تن سے جدا کیا جائے اور آپ کے گھر تباہ کر دیے جائیں۔ کیا آپ کو یہ گمان ہے کہ آپ عراقی ملیشیا سے زیادہ طاقت ور ہیں جن کی پشت پر امریکہ کھڑا ہوا تھا؟‘بظاہر یہ پوسٹ طالبان کی براہ راست اتحاد کی اپیل کا منھ توڑ جواب ہے۔

طالبان نے دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی کے نام ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان کی جنگ میں ’دو پر چم‘ نہیں لہرا سکتے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اس سے ’مجاہدین کی قوت منقسم ہو کر رہ جائے گی۔‘طالبان نے دولت اسلامیہ کے رہنما کے نام پیغام بھیجا تھالیکن اس کے برعکس ننگرہار کے معرکے میں دولت اسلامیہ کے حامیوں کو طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کو قتل کرنے کے لیے لوگوں پر زور دیتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔