این اے آر سی کو منتقل کیا گیا تو زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا ، سکندر بوسن

پی اے آر سی بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں سی ڈی اے کی این اے آر سی کی زمین ہتھیانے کے منصوبے کی مذمت

بدھ 1 جولائی 2015 18:32

اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء ) پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے بورڈ آف گورنرز نے بدھ کے روز ایک متفقہ قرارداد پاس کی جس میں سی ڈی اے کی جانب سے این اے آر سی زمین کو ہتھیانے کے لئے تیار کی گئی سمری کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ بورڈ آف گورنرز کا خصوصی اجلاس بدھ کو پی اے آر سی میں بورڈ کے صدر وفاقی وزیر برائے قومی غذائی تحفظ و تحقیق سردار سکندر حیات بوسن کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں اور لوگوں کے علاوہ وزارت کے ایڈیشنل سیکریٹری محمد ہاشم پلزائی، چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر افتخار احمد ، سابقی چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر امیر محمد بورڈ ممبران عبد المجید نظامانی اور ڈاکٹر مبارک شریک تھے۔

وزارت قومی تحفظ کے سیکریٹری سیرت اصغر بھی ٹیلی فون پر اجلاس میں شریک ہوئے۔

(جاری ہے)

قرارداد میں بی او جی کے صدر پر زور دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم پاکستان کواین اے آر سی کی جانب سے ملکی معیشت میں اضافہ اور قومی زرعی تحقیقاتی سسٹم میں ادا کئے جانے والے کردار سے آگاہ کریں اور انہیں اس مرکز کے بند یا یہاں سے دوسری جگہ منتقلی کے منفی اثرات و نتائج کے بارے میں آگاہ کریں۔

قرار داد میں کہا گیا کہ صدر بورڈ آف گورنرز وزیر اعظم پاکستان کو مشورہ دیں کہ وہ وسیع تر قومی مفاد کی خاطر سی ڈی اے جانب سے پیش کی جانی والی سمری کو مسترد کر کے سی ڈی اے کو ہدایات کر یں کہ وہ اس زمین کو مستقل طور پر این اے آر سی / پی اے آر سی کے نام پر منتقل کرے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سکندر حیات بوسن نے کہا کہ این اے آرسی نے زراعت کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس ادارے کی ریسرچ کی بدولت ملک کو اربوں روپے کا فائدہ ہوا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ اس ادارے نے رسٹ بیماری سے پاک گندم کی اقسام متعارف کر کر ملک کو کم و بیش 2000 بلین کا فائدہ پہنچایا ۔ جبکہ پولٹری بیماریوں پر قابو پانے کے لئے قائم نیشنل لیبارٹری نے برڈ فلو جیسی بیماریوں کا خاتمہ کر کے ملک کو 90 بلین کا فائدہ پہنچایا اور پاکستان کو برڈ فلو سے پاک کر دیا جس کی وجہ سے پولٹری کی ایکسپورٹ بڑھ گئی۔

انہوں نے کہا کہ 30 سے زائد 230بلین روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ سردار سکندر حیات خان بوسن نے کہا کہ این اے آر سی کی کاوشوں سے ملک شہد ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں شامل ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ یورپین شہد کی مکھی اور جید ٹیکنالو جی کی مدد سے شہد کی پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ ہو ا اور ملک کو 50 بلین روپے کا فائدہ ہوا۔بوسن نے کہا کہ این اے آر سی کی موجودہ جگہ سے منتقلی سے زراعت کے شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

اس موقع پر کراچی سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے سیکریٹری وزارت غذائی تحفظ و تحقیق سیرت اصغر نے پی اے آرسی کے سابقہ چیئرمینوں پر زور دیا کہ وہ جلد از جلد ایک پریس کانفرنس کریں اور این اے آر سی کی اہمیت کو اجاگر کریں۔ انہوں نے کہا کہ این اے آر سی قومی اثاثہ ہے اور جب دار الحکومت میں ہسپتال ، یونیورسٹیاں اور دیگر ادارے ہو سکتے ہیں تو این اے آر سی کیوں نہیں۔

لہٰذااین اے آر سی کی زرعی تحقیقاتی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے وزارت کسی بھی صورت میں سی ڈی اے کی سمری کو عملی جامہ نہیں پہنانے دے گی۔سابق چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر امیر محمد نے کہا کہ زراعت کے شعبے میں ملک کی بقا ہے اور یہ شعبہ تب تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ تحقیق نہ کی جائے لہذا این اے آر سی کو نہایت اہمیت حاصل ہے جو ملکی زراعت کی ترقی کے لئے کام رہا ہے۔

چیئرمین پی اے آر سی ڈاکٹر افتخار احمد نے اس موقع پر سی ڈی اے کی جانب سے این اے آر سی کی زمین کو ہاؤسنگ سکیم میں بدلنے کے منصوبے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ادارے کی طرف سے پیش کئے جانے والے تمام دلائل میں کوئی مضبوط بنیاد نہیں اور وہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے منافی ہے۔اس موقع پر ممبر بی او جی عبد المجید نظامانی نے کہا کہ این اے آر سی کی منتقلی معاشی قتل کے مترادف ہے ․ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے کہ پاکستان دشمن بیرونی قوتیں ملک کو بھوک اور افلاس کی جانب دھکیلنا چاہتے ہیں۔ پلاننگ کمیشن کے ممبر برائے زراعت ڈاکٹر مبارک نے بورڈ پر زور دیا کہ وہ ایک جامع سمری تیار کر ے تا کہ سی ڈی اے کی جانب سے پیش کئے جانے والے جواز کا دفاع کیا جا سکے۔

متعلقہ عنوان :