بھارتی سپریم کورٹ نے ریپ کے بعد تصفیے کی کوششوں کو غیر قانونی قراردیا

بدھ 1 جولائی 2015 20:33

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ یکم جولائی۔2015ء) بھارتی سپریم کورٹ نے آبروریزی کے مقدمات کے حوالے سے ماتحت عدالتوں کی طرف سے مصالحت اور تصفیے کو فروغ دینے کی کوششوں کو غیرقانونی قرار دے دیا ہے۔بھارتی سپریم کورٹ کے مطابق جنسی زیادتی کے واقعات میں متاثرہ خواتین اور آبروریزی کرنے والے مجرموں کے مابین مصالحت کی کوشش نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ خواتین کی عزت کے بھی خلاف ہے۔

بھارتی سپریم کورٹ کے جج دیپک مشرا نے کہا، ”ایسے کیسوں میں تصفیے کی کوشش دراصل ماتحت عدالتوں کی طرف سے ایک بڑی غلطی ہے۔“بھارتی حکومت نے ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم یوٹیوب سے مطالبہ کر دیا ہے کہ وہ بھارتی صارفین کی اس دستاویزی فلم تک رسائی کو روکے جو نئی دہلی میں گینگ ریپ کا نشانہ بننے والی ایک مقتولہ طالبہ کے بارے میں بنائی گئی ہے۔

(جاری ہے)

نئی دہلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک میڈیکل اسٹوڈنٹ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کر کے اْس کا قتل کرنے والے مجرموں میں سے ایک نے اس واقعے کی ذمہ دار مقتولہ کو ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ’اْسے رات کو اس طرح نہیں گھومنا چاہیے تھا‘بھارت میں ایک جاپانی سیاح طالبہ کی آبرویزی کرنے والے مبینہ ملزم کی تلاش جاری ہے جبکہ نیپالی خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے بعد اسے بہیمانہ طریقے سے ہلاک کرنے کے شْبے میں آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق بھارتی میڈیا کے حوالے سے بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے یہ واضح موقف ایسے وقت پر سامنے آیا ہے، جب مدراس ہائی کورٹ نے جنسی زیادتی کے ایک مقدمے کو ایک ’مصالحتی مرکز‘ میں منتقل کر دیا۔ بھارت میں سول تنازعات کے حل کے لیے کئی ایسے سینٹرز بنائے گئے ہیں، جہاں باقاعدہ عدالتی کارروائی کے بغیر ہی چھوٹے موٹے تنازعات کے فوری اور آسان حل کی کوشش کی جاتی ہے۔

مدراس ہائی کورٹ کے جج ڈی دیوداس نے آبروریزی کے اس کیس کو مصالحتی سینٹر منتقل کرنے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ مجرم کے اچھے مستقبل کی خاطر متاثرہ خاتون کو تصفیہ کر لینا چاہیے۔ انہوں نے اس مجرم کی ضمانت بھی قبول کر لی تھی، جس نے ابھی سات برس کی سزائے قید بھی مکمل نہیں کی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ اس مجرم کو مصالحتی سینٹر سے رجوع کرنے کے لیے لازمی طور پر کم از کم سات سال کی قید کاٹنا تھی۔

متعلقہ عنوان :