سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق کا اجلاس

این اے آر سی کے معاملات ، سیڈ ترمیمی بل 2015 ، حالیہ بارشوں کی وجہ سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات ، کھاد و سپرے کیلئے سبسڈی کے معاملات کے علاوہ ملت و غازی ٹریکٹرز کی کوالٹی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا

جمعرات 13 اگست 2015 18:06

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 13 اگست۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید مظفر حسین شاہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں این اے آر سی کے معاملات ، سیڈ ترمیمی بل 2015 ، حالیہ بارشوں کی وجہ سے فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات ، کھاد و سپرے کیلئے سبسڈی کے معاملات کے علاوہ ملت و غازی ٹریکٹرز کی کوالٹی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

کمیٹی کے اجلاس میں سی ڈی اے کی ڈائریکٹر اسٹیٹ منیجر نے قائمہ کمیٹی کو تبایا کہ سی ڈی اے نے NARCکو 30 سال کے لئے 1400 ایکٹر زمین 1975 میں لیز پر دی تھی جو 2005 میں ختم ہو گئی تھی NARCکے حکام نے لیز بڑھانے کیلئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے سی ڈی اے نے اس حوالے سے متعدد نوٹس بھی جاری کیے اور سی ڈی اے کی طر ف سے یہ کارروائی صرف اس محکمے کیلئے نہیں ہے باقی لیز پر دی جانے والی زمین و اگزار کرانے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔

(جاری ہے)

NARCنے سی ڈی اے سے این او سی حاصل کیے بغیر 26 عمارتیں ، پیٹرول پمپ ، رہائشی کانونی و دفاتر قائم کر لئے ہیں اور فی ایکٹر زمین پر کم از کم8 درخت لگانے تھے جو نہیں لگائے ۔ سی ڈی اے کے پاس اتھارٹی ہے کہ وہ اپنی زمین پر ہونے والی خلاف ورزی کی مانیٹرنگ کر سکے ۔ سی ڈی اے نے کیبنٹ ڈویژن کے ذریعے NARCکی لیز ختم ہونے کے بارے کمپیٹینٹ اتھارٹی کو لکھا ہے اور وفاقی حکومت اسلام آباد کے ماسٹر پلان کے مطابق اب یہ فیصلہ کر سکتی ہے ۔

ہم نے کسی پرائیوٹ ڈویلپر سے ان معاملات بارے نہ کوئی معاہدہ یا بات چیت شروع کر رکھی ہے ۔جس پر چیئرمین NARCنے کمیٹی کو بتایا کہ جب سی ڈی اے سے معاہدہ کیا گیا تھا تو NARCیو ایس ایڈ کا ایک منصوبہ تھا اس کی سمری معاہدے میں شامل کر دی گئی تھی ۔2005 میں ہمارا لیز ختم ہوا تو سی ڈی اے ہر سال ہم سے پیسے وصول کر رہا ہے یہ ادارہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

ہم اس کو تباہ نہیں ہونے دیں گے ۔انہو ں نے کہا کہ NARCمیں جو بھی تعمیراتی کام ہو ا ہے و ہ سی ڈی اے کی سپر ویژن میں ہوا ہے ۔سی ڈی اے کا ایک کلرک چیئرمین NARCکو کہتا ہے کہ یہ زمین کاشت کیلئے مناسب نہیں ہے ۔یہ بات ناقابل برداشت ہے ۔جس پر چیئرمین کمیٹی سینیٹر سید مظفر حسین نے کہا کہ سی ڈی اے اور NARCایک بریف بنا کر کمیٹی کو فراہم کریں جس میں سی ڈی اے کی طر ف سے لگائے گئے اعتراض کے علاوہ 1975 میں کیے گئے معاہدہ اور یو ایس ایڈ کا منصوبہ بھی شامل ہو۔

قائمہ کمیٹی نے NARCسے 1975 سے لے کر اب تک زراعت کے شعبے میں کی جانے والی تحقیقات اور ادارے کی طرف سے سرانجام دی جانے والی خدمات کی تفصیلات آئندہ اجلاس میں طلب کر لیں ۔قائمہ کمیٹی نے سی ڈی اے کے ساتھ مل کر NARCکا دورہ کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔قائمہ کمیٹی کے اجلا س میں بتایا گیا کہ حالیہ بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے پنجاب کے 11 اضلاع کی فصلیں متاثر ہوئی ہے اور ڈیڑھ لاکھ ایکٹر فصلوں کو نقصان ہوا ہے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ضلع میانیوالی میں جہاں 76 ہزارایکٹر زمین پر کھڑی فصلوں کو نقصان ہوا ہے ابھی سروے مکمل نہیں ہوا باقی معلومات کمیٹی کو فراہم کر دی جائیں گئیں ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہ کہ سندھ میں بارشوں اور ابرآلود موسم کی وجہ سے مختلف قسم کی سنڈیاں فصلوں کو نقصان پہنچا رہی ہیں اس بارے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے۔سپرے اور کھا د پر سبسڈی دینے کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے خوراک سکندر حیات بوسن نے کمیٹی کو بتایا کہ سپرے پر سبسڈی کے حوالے سے بجٹ میں آگا ہ کر دیا گیا تھا اور سپرے کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے رعایت دینا شروع کر دی ہیں جبکہ نیشنل کمپنیوں کے حکام نے کہا کہ ان کی پیکنگ بجٹ سے پہلے ہو چکی ہے اور رعایت فراہم کر دی جائے گی ۔

TCP کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کپاس کی کم سے کم قیمت تین ہزار وپے فی من مقرر کرنے کی تجویز دے دی ہے اور کیبنٹ سے منظوری باقی ہے ۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پچھلے سال کپاس کی قیمت تین ہزار روپے مقرر تھی اور ا س سال ابھی 21 سو روپے چل رہی ہے اس سے لاگت پیدائش بھی پوری نہیں ہوتی ۔انہوں نے کہا کہ TCP نے پچھلے سال جب خریداری شروع کی تو سندھ میں کپاس کی خریداری ختم ہو چکی تھی ۔

TCPوقت پر کپاس کی خریداری شروع کر ے۔چیئرمین کمیٹی نے یہ بھی ہدایت کی کہ وزارت برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق ہر 15 دن بعد ایک پمفلٹ جاری کرے جس میں فصلوں بارے کسانوں کو جدید معلومات فراہم کی جائیں ۔قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں ملت اور غازی ٹریکٹرز کمپنیوں کے حکام نے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ملک میں سالانہ 50 ہزار ٹریکٹر بنائے جارہے ہیں ہماری گنجائش 70 ہزار تک بنانے کی ہے ۔

3 سے4 ہزار ٹریکٹر افغانستان ایکسپورٹ بھی ہو رہے ہیں اور ہما رے بنائے ہوئے ٹریکٹرز جدید ٹیکنالوجی کے حامل ہیں لوگ تربیت حاصل کیے بغیر ٹریکٹر چلانا شروع کر دیتے ہیں ۔ ان کی مناسب تربیت کی جائے تو ٹریکٹر میں مسائل سامنے نہ آئیں ۔ہمیں ہر سال انجینئر نگ ڈویلپمنٹ بورڈ کی طر ف سے ایک کوالٹی سریٹیفکٹ بھی ملتا ہے جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ آئندہ اجلاس میں EDB اور ملت اور غازی ٹریکٹر کمپنیوں کے نمائندگان کمیٹی کو تمام معاملات بارے بریف کریں اور EDB بتائے کہ کس بنیاد پر سریٹیفکٹ جاری کیے جاتے ہیں حالانکہ ان ٹریکٹربارے عوام کی طر ف سے بے شمار شکایات موصول ہوئی ہیں اور آئندہ اجلاس میں کسانوں کے نمائندؤں کو بھی کمیٹی کے اجلاس میں بلا کر معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔

کمیٹی کے اجلاس میں کاشتکار رضوان احمد کی پٹیشن کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا جس میں بناسپتی چاول کاشت کرنے والے کسانوں کو 5 ہزار وپے فی ایکٹر سبسڈ ی دینا تھی اور اس حوالے سے 10 ارب روپے کی سبسڈی کا اعلان بھی کیا گیا تھا وفاقی وزیر نے کمیٹی کو بتایا کہ کاشتکاروں نے پٹواریوں سے جعلی بناسپتی کاشت کے کاغذات بنوا لئے جس کی وجہ سے سبسڈی کا بل 18 ارب تک پہنچ گیا جس کی وجہ سے فنڈز جاری نہیں ہو سکے اور یہ معاملہ ہماری وزارت کے متعلق بھی نہیں ہے اس کا تعلق وزارت خزانہ سے ہے کہ فنڈز جاری کیوں نہیں کیے گئے ۔

کمیٹی نے معاملہ وفاقی وزیر خزانہ کے علم میں لانے ک سفارش کر دی ۔کمیٹی نے سیڈ ترمیمی بل 2015 پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ آئندہ اجلا س میں طلب کر لی ۔کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محمد ظفراﷲ خان ڈھانڈلہ ، مختار احمد دھامرا، اور بریگیڈیئر ریٹائرڈ جوئن کنیتھ ویلمز کے علاوہ وفاقی وزیر برائے قومی تحفظ خوراک و تحقیق سکندر حیات بوسن ، سیکرٹری قومی تحفظ خوراک و تحقیق، چیئرمین NARC کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :