صدرمملکت ممنون حسین کے خطاب کامکمل متن …

جمعہ 14 اگست 2015 14:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 اگست۔2015ء ) صدرمملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ وہ زمانہ ماضی کا حصہ بن چکاہے جب پاکستان تنہائی کا شکار تھا، عالمی برادری میں پاکستان کوپذیرائی مل رہی ہے، اقوامِ عالم میں پاکستان کو یہ مقام اس کی جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی سے ملا ، چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ بھی کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہوجائیں۔

حال ہی میں مشرقی سرحدوں پر بعض ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ہیں ، ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان پرُامن بقائے باہمی کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا حامی ہے ، اگر پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم ا پنی سلامتی اور دفاع پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے، قوم اقتصادی راہداری منصوبے میں آنے والی رکاوٹیں ناکام بنا دے‘ حکومت اور مسلح افواج دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے پرعزم ہیں‘ دہشت گردی کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی‘ قوم نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیاں دی ہیں‘ دہشت گردی کے خلاف پوری قوم پاک فوج اور حکومت کی پشت پر کھڑی ہے‘ حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی کے باعث عالمی برادری میں پاکستان کو پذیرائی مل رہی ہے، بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام متنازعہ مسائل کو بات چیت سے حل کرنا چاہتے ہیں،مملکت خداداد کے قیام کے لئے بزرگوں نے لازوال قربانیاں پیش کیں ، آج ہم آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے ہیں ۔

(جاری ہے)

وہ یوم آزادی کے موقع پر پرچم کشائی کی تقریب سے خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کے یومِ آزادی کے موقع پر قومی پرچم کو وطنِ عزیز کی مقدس فضاؤں میں لہراتادیکھ کراپنے جلیل القدربزرگوں اور بانیانِ پاکستان کی قربانیوں کی یاد میرے ذہن میں تازہ ہو گئی ہے جنہوں نے تاریخ کی عدیم النظیرتحریک چلا کر غلامی کی زنجیروں کو توڑ پھینکا۔

میرے ذہن میں سرسید احمد خان کی تصویر ابھرتی ہے جنہوں نے جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے برصغیر میں جدید تعلیم کی شمع روشن کر کے نئے عہد کی بنیاد رکھی ۔ مشرق کے عظیم فلسفی اور شاعر علامہ محمد اقبال کے افکار کی خوشبو محسوس ہو تی ہے جنہوں نے خطے کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم وطن کاخواب دیکھا اور قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت کے منظر ابھرتے ہیں جنہوں نے غلامی اورجبر کی طاقتوں کا مقابلہ خالص جمہوری انداز میں کر کے تاریخ کی کایا پلٹ دی۔

آج کا دن ہمیں دیگر بانیانِ پاکستان علی برادران، قائدِ ملت لیاقت علی خاں، نواب سلیم اللہ خاں، مولوی فضل الحق سمیت دیگر بزرگوں کی قربانیوں، جدوجہد اور عظیم افکار کی یاد دلاتا ہے اوراِس عہد کی تجدید کا مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے اِن بزرگوں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ہمیں اپنے عظیم وطن کی خدمت کرنی ہے اور اس کا پرچم ہمیشہ سربلند رکھناہے۔

انہوں نے کہا کہ تحریکِ پاکستان کے زمانے میں قوم کا جوش و جذبہ کیا تھا؟ اس کا اندازہ اُن خطوط سے ہوتا ہے جواُس زمانے میں بچوں نے قائد اعظم کو لکھے۔

میں آپ کو ان بے شمار خطوط میں سے صرف تین خط سنانا چاہتا ہوں۔ یہ خطوط تاریخ کا ایک دلچسپ اور شاندار باب ہیں۔ کہنے کو تو یہ بچوں کی معصومانہ باتیں ہیں لیکن بچوں کی باتیں دراصل اُن کے والدین اور خاندان کے بزرگوں کے خیالات اور فکر ہی کی عکاس ہوتی ہیں ۔

ان خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ پاکستان کے دوران برصغیر کے مسلمان کس انداز میں سوچ رہے تھے۔انہوں نے کہا کہ یہ خط صوبہ بہار کے چھوٹے سے علاقے بانکی پور، راما،ضلع پٹنہ سے ۲۲/ اپریل ۱۹۴۲ء کو مسلم ایچ ای اسکول کے نویں جماعت کے طالب علم نے قائد اعظم کو ارسال کیا۔انہوں نے کہا کہ ”نہایت ہی محترم قائد اعظم! مہربانی کر کے مسلم قومی سرمایہ میں میری یہ چھوٹی سی کاوش قبول فرمائیں۔

میں بہت ہی محدود وسائل کا حامل درسگاہ کا ایک طالب علم ہوں مگر میں اپنی محدود آمدنی کو اپنے فرض کے درمیان آنے کی اجازت نہیں دوں گا جو کہ مسلمانانِ ہنداور آپ کی تابعداری کی وجہ سے مجھ پر عائد ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہرمہینے سات دن تک بغیر ناشتے کے مدرسے جاؤں گا اور اس طرح جو رقم بچے گی وہ آپ کو بھیجوں گا۔ برائے مہربانی اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ مجھے اس امتحان میں کامیاب کرے۔

قائد اعظم ! میں آپ کی دعاؤں کا طلب گار ہوں۔ انہوں نے کہا کہ یہ خط ملتان سے نویں جماعت کے ایک طالب علم نے ۱۷ جون ۱۹۴۲ء کو قائد اعظم کو ارسال کیا۔”بخدمت جناب قائد اعظم صاحب !۔ آپ کے حکم کے مطابق مسلمانوں کے قومی فنڈ کے لیے آٹھ آنے کا پوسٹل آرڈر نمبر A034272 بھیج رہا ہوں ۔ یہ میں نے اپنے جیب خرچ میں سے جمع کیا ہے۔ امید ہے آپ میری حقیر رقم قبول فرمائیں گے ۔

یہ خط پانچویں جماعت کے ایک طالب علم نے ۲۹/ فروری ۱۹۴۲ء کو امرتسر سے قائد اعظم کو تحریر کیا ۔ ”جناب بابا جی صاحب، حضور جناح صاحب بعد آداب غلامانہ عرض ہے کہ پھوپھا جان بیس دن ہوئے، دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناح صاحب نے مسلمانوں کے کام ] کے[ واسطے ہر ایک مسلمان سے چند ہ مانگا ہے۔ آگے نہیں مانگا تھا۔ بابا جی صاحب مجھ غلام کو جو پیسہ ملتا ہے میں نے اکٹھا کر لیا ہے۔

آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہو گئے ہیں ۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کر کے بھیجے ہیں ۔ خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ اگر یہ آٹھ آنے آپ کو مل گئے اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں اور جب بڑا ہوں گا اور بھی بہت زیادہ روپے بھیجوں گا ۔خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب۔انہوں نے کہا کہ میرے عزیز ہم وطنو!۔

آج ہمیں ایسے ہی جذبے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے وطن کی تعمیرِ نو اپنے بزرگوں کے خوابوں کے مطابق کرسکیں۔ آج جب ہم پاکستان کو درپیش بحرانوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اِن میں سے بیشتر مسائل کی وجہ تعلیم کا انحطاط ہے۔تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا رشتہ بھی اسی سے جڑا ہوا ہے جس سے نمٹنے کے لیے ہمیں سرسید کے جذبے کے تحت جدید تعلیم کو فروغ دینا ہے۔

پاکستان کا ایک اور بڑا مسئلہ بدعنوانی اور کرپشن ہے جس کے نتیجے میں ہماری معیشت اور انتظامی ڈھانچہ شکست وریخت کا شکار ہوا۔ہمیں کھلی آنکھوں اوربیدارمغزکے ساتھ بد عنوان عناصر کو لگام دینی ہے ۔معاشی عدم استحکام بھی وطنِ عزیز کے لیے غیر معمولی چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے جس سے نمٹنے کے لیے موجودہ حکومت بڑی تن دہی سے کام کر رہی ہے ۔ اس مقصد کے لیے چین کے تعاون سے تعمیر کی جانے والی اقتصادی راہداری اس اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ نہ صرف دونوں ملکوں بلکہ خطے کے تمام ممالک کے لیے بھی مفید ثابت ہوگی۔

اس لیے میں قوم سے کہا کرتا ہوں کہ وہ راہداری کی بروقت تکمیل کی راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو دور کر دے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا تیسرا بڑا مسئلہ منفی اور تخریبی عناصر کا طرزِ عمل ہے جنھوں نے بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ قومی اتحاد کو نقصان پہنچانے کی ناپاک کوششیں کی ۔

یہ لوگ آئین اور جمہوریت کے بارے میں بھی منفی طرزِعمل اختیار کرتے ہیں لیکن اللہ کے فضل سے قوم باشعور ہے جس نے ایسے لوگوں کی ہر کوشش ناکام بنا کر ملک کو نظریاتی، سیاسی، اقتصادی اور ہر اعتبار سے مستحکم کرنے کا عزم کر رکھا ہے ۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک طویل مدت سے حالتِ جنگ میں ہے۔ ایک طرف شدت پسندوں نے ریاست کوچیلنج کر رکھا ہے تو دوسری طرف سماج دشمن عناصر اور غیر ملکی مفاد کے لیے کام کرنے والوں نے ملک کے بعض حصوں کاامن و امان بگاڑ دیا۔ حکومت ِ پاکستان نے بھرپور سیاسی عزم کے ساتھ اس چیلنج کا سامنا کیا جس کے مثبت نتائج سامنے آرہے ہیں ۔میں قوم کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ کارروائی کامیابی کے حصول تک جاری رہے گی۔

اس جنگ میں ہماری مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوانوں یہاں تک کہ اسکولوں کے معصوم بچوں نے بھی اپنی جانیں قربان کی ہیں جن میں سب سے تکلیف دہ واقعہ آرمی پبلک اسکول کا ہے جو بے رحم دہشت گردوں کانشانہ بنا۔ ان قربانیوں کے لیے قوم ان کی احسان مندہے اور اپنے شہیدوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے۔ یہ امر بھی باعثِ اطمینان ہے کہ پوری قوم یک جان ہو کر دہشت گرد ی اور انتہا پسندی کے خلاف اپنی حکومت اور افواج پاکستان کی پشت پر کھڑی ہے اور شدت پسندپسپا ہو رہے ہیں ۔

میں آپ کو خوش خبری دیتا ہوں کہ انشاء اللہ بہت تھوڑی مدت میں ہم ان مسائل پر قابو پا لیں گے۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیاسی و جمہوری استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات کیے ہیں۔ سیاسی جماعتوں میں برداشت کا کلچر فروغ پا رہا ہے، سیاست کی بنیاد پر قومی مفادکے معاملات پر اختلاف کا رحجان دم توڑ رہاہے اور قوم ہر اعتبار سے متحد اوریک جان ہو رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ گزشتہ برسوں کے دوران ہم نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں ، اُن میں سب سے اہم کامیابی یہی ہے۔ مجھے اللہ کی رحمت سے پوری توقع ہے کہ آئندہ چند برسوں کے دوران ان معاملات میں مزید بہتری آئے گی اور ہر آنے والا دن پاکستان کے لیے استحکام اور طاقت کی نوید لائے گا۔انہوں نے کہا کہ خارجہ تعلقات کے شعبے میں بھی پاکستان نے حال ہی میں کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

وہ زمانہ ماضی کا حصہ بن چکاہے جب پاکستان تنہائی کا شکار تھا اب اللہ کے فضل و کرم سے عالمی برادری میں پاکستان کوپذیرائی مل رہی ہے۔ اقوامِ عالم میں پاکستان کو یہ مقام اس کی جرأت مندانہ اور حقیقت پسندانہ خارجہ پالیسی سے ملا ہے جس کا مرکزی نکتہ دنیا کے تمام ملکوں بالخصوص ہمسایہ ممالک سے خوش گوار اور دوستانہ تعلقات کافروغ ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بھارت کے ساتھ بھی کشمیر سمیت تمام متنازع مسائل بات چیت کے ذریعے حل ہوجائیں۔

حال ہی میں مشرقی سرحدوں پر بعض ناخوش گوار واقعات رونما ہوئے ہیں لیکن ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان پرُامن بقائے باہمی کی بنیاد پر دوطرفہ تعلقات کو فروغ دینے کا حامی ہے لیکن اگر پاکستان کی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق ہوا تو ہم ا پنی سلامتی اور دفاع پرکوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے ۔ ملک کے مختلف حصوں میں سیلابی صورت حال کی وجہ سے جشنِ آزادی کی خوشیاں گہنا گئی ہیں۔

یہ صورت حال پریشان کن ہے، وقت آگیا ہے کہ مستقبل میں سیلاب اور اُس کے نقصانات سے بچنے کے لیے مستقل نوعیت کے اقدامات کیے جائیں۔ اس سلسلے میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے سنجیدہ مطالعے کی ضرور ت ہے۔ مجھے اطمینان ہے کہ ہماری متعلقہ وزارت ان معاملات میں اپنی ذمہ داری پوری کر رہی ہے لیکن میری خواہش ہے کہ ان کوششوں میں مزید تیزی پیدا کی جائے ۔

ماہرین کا خیال ہے کہ سیلاب سے پیدا ہونے والے نقصانات کو اس وقت تک محدود نہیں کیا جاسکتا جب تک ملک میں پانی کے چھوٹے بڑے ذخائر تعمیر نہ کیے جائیں۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ حکومت ملک میں نئے ڈیموں کی تعمیر کے لیے پُرعزم ہے ۔ دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ڈیم پر کام جاری ہے۔ اسی طرح وزیر اعظم نے چند روز قبل بلوچستان میں ایک ڈیم کا سنگِ بنیاد رکھا ہے۔

ہماری ضرورت اس سے زیادہ ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہماری قومی قیادت اور پارلیمنٹ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے مل بیٹھے اور باہمی اتفاق ِ رائے سے اس مسئلے کا حل ڈھونڈ نکالے تاکہ ہم سیلاب سے پہنچنے والے نقصانات کو بھی محدود کر سکیں اور پانی کی کمی کے چیلنج سے بھی نمٹ سکیں۔ جشن ِ آزادی کی رونقوں میں اُس وقت تک جان نہیں پڑتی جب تک وطنِ عزیز کے گلی کوچوں میں آپ کی آوازیں نہ گونجیں۔

نوجوانوں کی سرگرمیاں اور جوش و خروش جشن ِ آزادی کی تقریبات کا حاصل ہیں لیکن کبھی کبھار ان سرگرمیوں کی خوبصورتی بعض ناخوشگوار واقعات کی وجہ سے ماند پڑجاتی ہے ۔ اس لیے میں اپنے بچوں سے کہا کرتا ہوں کہ وہ قومی تہواروں پر خوشیاں ضرور منائیں لیکن کوشش کریں کہ ان سے کسی کو تکلیف نہ پہنچے۔ اس موقع پر میں قوم کو یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ وہ جشنِ آزادی کی خوشیوں میں سیلاب زدگان کو بھی شریک رکھے اور اس مشکل گھڑی میں ان کا ساتھ دے کر ثابت کردے کہ پوری قوم دکھ اور سُکھ کے ہرموقع پر اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کے ساتھ ہے۔

اپنی خوشیوں میں قبائلی علاقوں کے ان عوام کو بھی شامل رکھیں جو دہشت گردی کی وجہ سے اپنا گھر بار چھوڑ کر کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہوئے۔ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ اپنے ان بہن بھائیوں کی بحفاظت اپنے گھروں کو واپسی کویقینی بنائیں اور ان کی ضروریات کا خیال رکھیں۔آئیے ، میرے ساتھ اس دعا میں شریک ہو جائیں کہ ہمارا یہ سبز ہلالی پرچم وطن عزیز کی آزاد فضاؤں میں ہمیشہ لہراتا رہے۔

ہمارے بچوں اور نوجوانوں میں ملی جذبہ اسی طرح پروان چڑھتا رہے۔قومی معیشت کا پہیہ پوری رفتار سے حرکت میں رہے اور پاک وطن کا کوئی شہری رات کو کبھی بھوکا نہ سوئے۔وطن عزیز کے گوشے گوشے میں امن قائم ہو، اس کے گلی کوچوں میں محبت کا فروغ ہو اور نفرتیں دم توڑ جائیں۔پاکستان کا بچہ بچہ زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو،جہالت کے اندھیرے چُھٹ جائیں اورپاکستان سائنس و تحقیق کے میدان میں صفِ اوّل کے ملکوں میں شامل ہو جائے۔ہم عہد کریں کہ ہمارا آئندہ جشنِ آزادی آج کے جشنِ آزادی سے زیادہ بہتر اور زیادہ شاندار ہوگا۔اللہ آپ سب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے ۔

متعلقہ عنوان :