Live Updates

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ظہیر الاسلام عباسی سول اور فوجی قیادت کوہٹا کر اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ٗ مشاہد اﷲ خان

28اگست کی شام سازش کی ٹیپ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو سنائی ، جنرل راحیل شریف ٹیپ سن کر حیران رہ گئے، 31 اگست کو اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہی ہیں ، گاڑیوں میں 25ٗ25کلاشنکوفیں تھیں ، استعمال کیلئے لوگ پہلے پہنچ چکے تھے ٗنواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے لاہور بھیجنے کا فیصلہ بھی سازش سے بچنے کیلئے کیا گیا تھا،ہمیں پتہ تھا لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی کے کچھ لوگ بھی موجود تھے ، فوج بطور ادارہ حکومت کیخلاف سازش میں شامل نہیں تھی ٗ وفاقی وزیر پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کیخلاف کی کارروائی کر سکے ٗپرویز مشرف کیخلاف بھی وہ کارروائی نہیں کی گئی جیسی کی جانی چاہیے ٗانٹرویو

جمعہ 14 اگست 2015 21:11

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 14 اگست۔2015ء) وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کے اہم رکن اور قریبی ساتھی مشاہداﷲ خان نے کہا ہے کہ پچھلے سال اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے دوران پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی نے ایک سازش تیار کی تھی جس کے ذریعے وہ فوجی اور سول قیادت کو ہٹا کر ملک پر قبضہ کرنا چاہتے تھے ٗ 28اگست کی شام سازش کی ٹیپ وزیر اعظم نے آرمی چیف کو سنائی ٗ جنرل راحیل شریف ٹیپ سن کر حیران رہ گئے ٗوزیر اعظم ہاؤس پر قبضے کی بات کی گئی ٗ انٹیلی جنس بیورو ذرائع کے مطابق 31 اگست کو اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہی ہیں ٗ گاڑیوں میں 25ٗ25کلاشنکوفیں تھیں ٗاستعمال کیلئے لوگ پہلے پہنچ چکے تھے ٗنواز شریف کو وزیر اعظم ہاؤس سے بھیجنے کا فیصلہ بھی ایک سازش سے بچنے کیلئے کیا گیا تھا ٗہمیں پتہ تھا لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی کے کچھ لوگ بھی موجود تھے ٗتاہم فوج بطور ادارہ حکومت کے خلاف سازش میں شامل نہیں تھی ٗپاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کے خلاف کی کارروائی کر سکے ٗپرویز مشرف کے خلاف بھی وہ کارروائی نہیں کی گئی جیسی کی جانی چاہیے۔

(جاری ہے)

وہ بی بی سی سے گفتگو کررہے تھے مشاہد اﷲ خان نے کہاکہ اس سازش کا انکشاف اس وقت ہوا جب پاکستان کے سویلین انٹیلی جنس ادارے انٹیلی جنس بیورو نے لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام عباسی کی ٹیلی فونک گفتگو ٹیپ کی جس میں وہ مختلف لوگوں کو ہدایات دے رہے تھے کہ دھرنے کے دوران کس طرح افراتفری پھیلانی ہے اور وزیراعظم ہاؤس پر قبضہ کرنا ہے۔مشاہد اﷲ خان نے دھرنے کے ایک سال مکمل ہونے پر کہا کہ 28 اگست کی شام وزیر اعظم نواز شریف نے بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے ملاقات کے دوران یہ آڈیو ٹیپ انھیں سنائی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ جنرل راحیل شریف یہ ٹیپ سن کر حیران رہ گئے۔ انھوں نے اسی وقت جنرل ظہیر الاسلام عباسی کو اسی میٹنگ میں وزیر اعظم کے سامنے طلب کر کے وہی ٹیپ دوبارہ چلوائی اور ان سے پوچھا کہ کیا یہ آواز آپ ہی کی ہے اور جنرل عباسی کی جانب سے اس تصدیق کے بعد کہ یہ آواز انہی کی ہے، جنرل راحیل نے جنرل عباسی کو میٹنگ سے چلے جانے کو کہامشاہد اﷲ خان نے کہا کہ یہ ٹیپ اور اس کے علاوہ بھی اس وقت حکومت کو مختلف ذرائع سے جو اطلاعات مل رہی تھیں وہ بہت خوفناک تھیں اور اس وقت تیار ہونے والی سازش کے نتیجے میں بہت تباہی ہونی تھی اس ٹیپ میں کھلی سازش تیار کی جا رہی تھی کہ کیا کرنا ہے ٗکیسے کرنا ہے ٗ وزیراعظم ہاؤس پر قبضے کی بھی بات کی گئی تھی یعنی اس سب کے نتیجے میں بہت ہی زیادہ بگاڑ تھا۔

اس وقت کچھ بھی ہو سکتا تھامشاہد اﷲ نے کہاکہ اس وقت جو سازش تیار کی جا رہی تھی اس کا نشانہ صرف سول حکومت یا وزیراعظم نواز شریف نہیں تھے بلکہ یہ سازش بری فوج کے سربراہ کے خلاف بھی تھی۔اس سازش کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ وزیراعظم نواز شریف اور جنرل راحیل شریف کے درمیان اتنی خلیج اور اختلافات پیدا کر دئیے جائیں کہ نواز شریف کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ جنرل راحیل کے خلاف کوئی ایکشن لیں اور جب وہ ایکشن لیں تو اس وقت کچھ لوگ اس وقت حرکت میں آئیں اور اقتدار پر قابض ہو جائیں اس سوال پر کہ جب اسلام آباد میں اتنی سنگین سازش تیار ہو رہی تھی اور اس پر عمل کرنے کی کوشش ہو رہی تھی عین اس وقت وزیراعظم نواز شریف اچانک وزیراعظم ہاؤس چھوڑ کر اپنے اہل خانہ سمیت لاہور کیوں چلے گئے؟مشاہد اﷲ نے کہا کہ وزیراعظم کو ایوان وزیراعظم سے باہر نکالنے کا فیصلہ بھی ایک سازش سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس کی تفصیل بتاتے ہوئے مشاہد اﷲ نے کہا کہ 31 اگست کے روز انٹیلی جنس بیورو اور بعض دیگر ذرائع سے حکومت کو خبر ملی کہ اسلحے سے بھری دو گاڑیاں وزیراعظم ہاؤس کی طرف آ رہی ہیں۔ اس وقت تک پی ٹی وی پر قبضہ ہو چکا تھا اور لوگ سیکریٹریٹ اور وزیراعظم ہاؤس کی طرف بڑھ رہے تھے۔ایسے میں حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وزیراعظم کو وہاں سے نکال کر محفوظ مقام پر منتقل کر دیا جائے۔

بعد میں ہمیں معلوم ہوا کہ فوج ہی کے ایک افسر نے دو گاڑیوں کو پکڑا جو وزیراعظم ہاؤس جانے کی کوشش کر رہی تھیں ان گاڑیوں میں پچیس پچیس کلاشنکوف تھیں۔اس سوال پر کہ یہ بندوقیں کس نے اور کہاں استعمال کرنی تھیں، مشاہد اﷲ خان نے کہا کہ جب میں نے اس بارے میں دریافت کیا تو مجھے بتایا گیا کہ ان کے کچھ لوگ وہاں (وزیراعظم ہاؤس) پہلے ہی پہنچ چکے تھے جنہوں نے ان کلاشنکوفوں کو استعمال کرنا تھا بس یہ اسلحہ اندر لانے کی دیر تھی جب ان سے پوچھا گیا کہ ایک طرف آپ بعض فوجی جرنیلوں پر حکومت کے خلاف سازش کا الزام لگا رہے ہیں اور دوسری طرف وزیراعظم ہاؤس اور دیگر اہم عمارات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی فوج ہی کو دے دی گئی مشاہد اﷲ نے کہا کہ فوج بطور ادارہ حکومت کے خلاف اس سازش میں شامل نہیں تھی۔

بعض بہت موثر اور سینئر جرنیل اس سازش میں ملوث تھے جن میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیرالاسلام بھی شامل ہیں تاہم جنرل راحیل اور پاکستانی فوج ایک ادارے کے طور پر اس سازش میں شامل نہیں تھی مشاہد اﷲ نے کہا کہ اگر جنرل راحیل شریف حکومت ختم کرنے کی خواہش رکھتے تو پھر دھرنوں وغیرہ کی ضرورت ہی نہیں پیش آنی تھی اس سوال پر کہ حکومت کو اس دھرنے کی آڑ میں ہونے والی اس مبینہ سازش کا علم کب ہوا، تو مشاہداﷲ خان نے کہا کہ حکومت کو پہلے دن سے اس سازش کا علم تھا ہمیں پتہ تھا کہ لندن میں طاہر القادری اور عمران خان کے درمیان ہونے والی ملاقات میں آئی ایس آئی کے کچھ لوگ بھی موجود تھے۔

ہم یہ بھی جانتے تھے کہ اس ملاقات میں کیا کچھ طے ہوا کہ کس نے لاہور سے کب چلنا ہے کہاں پہنچنا ہے، کیا کرنا ہے انھوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے دن ہی سے یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ کسی بھی قیمت پر ان لوگوں کے خلاف طاقت استعمال نہیں کرنی کیونکہ بعض طاقتیں یہی چاہتی تھیں کہ حکومت طاقت استعمال کرے اور ان کی سازش پر عمل کا راستہ ہموار ہو جائے۔مبینہ سازش میں ملوث ہونے پر آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ ظہیر اسلام عباسی کے خلاف کارروائی کے امکانات کے بارے میں ایک سوال پر مشاہد اﷲ نے کہا کہ پاکستان میں جمہوریت ابھی اتنی طاقتور نہیں کہ اس طرح کی کارروائی کر سکے گو کہ ہماری حکومت نے جنرل مشرف کے خلاف مقدمہ تو درج کیا تاہم ہم ان کے خلاف بھی اس طرح کی کارروائی نہیں کر سکے جیسا کہ کی جانی چاہیے تھی وزیراعظم کی ساری توجہ ملکی استحکام اور اسے آگے لے جانے پر مرکوز ہے۔

ایسے موقع پر وہ اس قسم کی انکوائری یا کارروائی کا فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔

Live عمران خان سے متعلق تازہ ترین معلومات