فاطمہ کون ہے؟؟ پاکستان کی وہ بہادر بیٹی جس سے عام پاکستانی نا واقف ۔۔ جسے دنیا کے سامنے لایا ایک امریکی بلاگر

Sumaira Faqir Hussain سمیرا فقیرحسین پیر 17 اگست 2015 18:07

فاطمہ کون ہے؟؟ پاکستان کی وہ بہادر بیٹی جس سے عام پاکستانی نا واقف ۔۔ ..

نیو یارک (اردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار. 17 اگست 2015 ء) : فاطمہ کی ساری جدو جہد کو ساری دنیا میں لوگوں تک پہنچانے کا سہرا برینڈن سٹیٹن کے سر جاتا ہے۔برینڈن سٹیٹن نے ہیومن آف نیو یارک کے ذریعے سیدہ فاطمہ کی کہانی کو لوگوں تک پہنچایا اور فاطمہ کی مدد کے لیے اپیل کی۔ جس کے نتیجے میں تین دن کے اندر اندرفاطمہ کو دو کروڑ روپے کی امداد جمع ہو چکی ہے۔

برینڈن سٹیٹن نے ہیومن آف نیو یارک بلاگز کے ذریعے (جس میں انسٹا گرام، فیس بک اور ٹویٹر شامل ہیں) عام پاکستانیوں کی تصاویر بنائیں اور بہت سی ایسی باتیں جو عام حالات میں ہماری نظر سے نہیں گزرتیں ان باتوں کو ہمارے علم میں لائے۔فاطمہ کی اس درجہ مدد کے لیے ہم بحیثیت قوم برینڈن سٹیٹن کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
سیدہ غلام فاطمہ وہ خاتون ہے جنہوں نے اپنی پوری زندگی جبری مشقت کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کی نذر کر دی۔

(جاری ہے)

جبری مشقت پاکستان میں غیر قانونی مانی جاتی ہے لیکن پھر بھی متعدد افراد اس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جبری مشقت میں اینٹوں کی بھٹی پر کام کرنے والے پاکستان کے دیہی علاقوں کے لوگ اپنے مالک سے کچھ پیسے ادھار لیتے ہیں۔ جس کے عوض انہیں اسی بھٹی میں مقررہ وقت تک کام کرنا ہوتا لیکن مدت پوری ہونے کے بعد وہ انہیں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان کی ادھار لی ہوئی رقم سود سمیت اتنی بڑھ گئی ہے کہ وہ اسے چکانے سے قاصر ہیں۔

جبری مشقت پاکستان میں غیر قانونی تو ہے ہی لیکن بھٹیوں کے مالکان کے رعب و دبدبے کے باعث تمام قانون مٹی میں ملا دئے جاتے ہیں۔ اس جبری مشقت کو ختم کرنے کے لیے سیدہ غلام فاطمہ نے قدم بڑھایا۔ انہوں نے اپنی تنظیم بانڈڈ لیبر لبریشن فرنٹ کے ذریعے ایسے سینٹر قائم کیے ہیں جہاں مزدور پناہ سمیت قانونی مدد کے لیے بھی جا سکتے ہیں۔ جبری مشقت کا یہ سلسلہ محض جہالت کے اندھیرے میں ہی پنپ سکتا ہے لیکن اگر سیدہ فاطمہ لوگوں بالخصوص مزدوروں کو اپنے حقوق سے متعلق قانونی شعور دلوانے میں کامیاب ہو گئیں تو یہ نظا م خود بخود زمین بوس ہو جائے گا۔

سیدہ فاطمہ نے اپنے اس خواب کی تعبیر کے لئے کئی قربانیاں دیں، فاطمہ کو ڈرائے دھمکانے کے ساتھ ساتھ مارا پیٹا بھی گیا تاہم وہ وہاں سے لاہور آگئیں جہاں انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا سینٹر قائم کیا۔ جس میں جمع کی گئی تمام رقوم کو مزدوروں کی آزادی کے لیے استعمال کیا جائے گا تاکہ مزید سینٹرز بھی قائم کیے جا سکیں۔

متعلقہ عنوان :