24 شہروں کا 80 فیصد پانی مضر صحت ہے اور ملک میں 50 فیصد منرل واٹر کمپنیاں مضر صحت پانی فراہم کررہی ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کے اجلاس میں انکشاف

دوہری ڈگری کا معاملہ حل کیا جائے اور جن طالب علموں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے ان کو ڈگری فراہم کی جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے موثر پالیسی تیا رکی جائے، قائمہ کمیٹی کی ہدایت

منگل 18 اگست 2015 22:02

اسلام آباد ۔ 18 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 18 اگست۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کو بتایا گیا ہے کہ 24 شہروں کا 80 فیصد پانی مضر صحت ہے اور ملک میں 50 فیصد منرل واٹر کمپنیاں مضر صحت پانی فراہم کررہی ہیں۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان سیف اللہ کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔

اجلاس میں وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور اس کی تنظیموں کے کام کے طریقہ کار بجٹ ،تحقیق کے شعبے میں سرانجام دینے والی خدمات اور اداروں کو درپیش مسائل کے علاوہ دوہری ڈگری کے معاملات اور پبلک پٹیشنز کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ صاف پانی کی سیکم کے منصوبے کے متعلق پبلک پٹیشن کے حوالے سے وفاقی وزیر برائے سائنس وٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے کہا کہ اس منصوبے کیلئے چھ ماہ کیلئے فنڈ ملے ہیں۔

(جاری ہے)

سیکرٹری سائنس و ٹیکنالوجی نے قائمہ کمیٹی کو وزارت ، تنظیموں کی کارکردگی ،کام کے طریقہ کار اور مختلف شعبوں میں کی جانے والی تحقیق بارے تفصیلی طور پر آگاہ کیا۔ وفاقی وزیر کہا کہ کسی بھی ملک کی ترقی کیلئے سائنس و ٹیکنالوجی کا شعبہ انتہائی اہم ہوتا ہے مگر پاکستان میں ان شعبوں کو بجٹ کی کمی کا سامنا ہے، حکومت آمدن بڑھانے کیلئے اقدامات کر رہی ہے، یہ ادارہ 1953 میں قائم ہوا، ملک میں اس کی 12 لیبز قائم ہیں اور 6 ٹیکنکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ قائم ہیں۔

قائمہ کمیٹی کو این آئی او ادارے کی کارکردگی بارے بھی تفصیل سے آگاہ کیا گیا ۔ سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے سمندری علاقے کو وسعت اس ادارے کی خدمات کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے اور اس سے انڈیا کو بہت زیادہ نقصان بھی ہوا ہے۔ اجلاس میں پی سی آر ڈبلیو آر کی کارکردگی، بجٹ و دیگر معاملات کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ حکام نے قائمہ کمیٹی کو تبایا کہ یہ ادارہ 1964 میں بنا تھا جس کابنیادی مقصد پانی پر تحقیق کرنا اور زیر زمین پانی کی سطح کی پیمائش کرنا ان کی بڑی شہروں میں 24 لیبارٹریاں قائم ہیں، ادارے نے پانی کے 30 بڑے ذخائر پیدا کرائے ہیں جنہیں 3 لاکھ انسان و حیوان استعمال کرتے ہیں۔

انہوں نے کمیٹی میں یہ بھی انکشاف کیا کہ ملک کے بڑے 24 شہروں میں پانی پر تحقیق کی گئی ہے اور ان 24 شہروں کا 80 فیصد پانی مضر صحت ہے جس کی بنیادی وجہ کھاد و سپرے بیان کی گئی ہے اور ملک میں 50 فیصد منرل واٹر کمپنیاں مضر صحت پانی فراہم کررہی ہیں، اس حوالے سے 28 اگست کو ایک میٹنگ طلب کی گئی ہے جس میں تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عوام کو پانی گھی اور ڈیری کی اشیاء فراہم کرنے کے لئے وزارت کو ٹاسک دے دیا ہے اور وزیر اعلی پنجاب سے اس حوالے سے ملاقات بھی طے ہے۔

قائمہ کمیٹی کے جلاس میں این ائی ای، پی سی ار ای ٹی ، پی ٹی ایس ٹی ، پی ایس ایف کی کارکردگی و دیگر معاملات کاجا ئزہ لیا گیا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں کامسیٹس کے حوالے سے دوھری ڈگری کے معاملے کاجائزہ لیا گیا، چیر مین ایچ ای سی نے قائمہ کمیٹی کو آگاہ کیا کہ ایچ ای سی اور بورڈ کو اس بارے میں آگاہ نہیں کیا گیا اور ملک میں ایک وقت میں دوڈگریاں جاری نہیں کی جاسکتیں۔

انہوں نے کہاکہ اس سے ملک میں پیسوں سے ڈگری جاری کرنے کی روایت بن جائے گی ۔ اس پر وفاقی وزیر نے کہاکہ اگر معاملہ حل نہ کیا گیا تو یہ طالب علموں کے ساتھ زیادتی ہوگی، ایچ ای سی ایسی پالیسی مرتب کرے کہ مستقبل میں ایسے مسائل سامنے نہ آئیں جس پر چیرمین کمیٹی اور اراکین کمیٹی نے متفقہ طور پر ہدایات کی کہ جن طالب علموں کی رجسٹریشن ہوچکی ہے ان کو ڈگری فراہم کی جائے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچنے کے لئے موثر پالیسی تیا رکی جائے ۔

کمیٹی کے اجلا س میں سینیٹر محمد اعظم خان سواتی ، لیفٹیننٹ جنرل ر عبد لقیوم، اسلام الدین شیخ اور پروفیسر ساجد میر کے علاوہ وفاقی وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین ، سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، چیرمین ایچ ای سی، ریکٹر نسٹ ، ریکٹر کامسیٹ کے علاوہ اعلی حکام نے شرکت کی ۔

متعلقہ عنوان :