پاکستان میں جرگہ سسٹم کو فعال کیا جائے، ہمسایہ ملک میں جرگہ سسٹم کے تحت 9لاکھ 67ہزار کیسز حل کئے گئے ، لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں کسی حاضر جج کو نہیں ہونا چاہیے، عوام فوری اور سستے انصاف کیلئے سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے، یہ عوامی جمہوریت نہیں ہے

ممتاز ماہر قانون ایس ایم ظفر کاسینیٹ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب

بدھ 19 اگست 2015 22:38

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 19 اگست۔2015ء) ممتاز ماہر قانون ایس ایم ظفر نے کہا ہے کہ پاکستان میں جرگہ سسٹم کو فعال کیا جائے، ہمسایہ ملک میں اس جرگہ سسٹم کے تحت 9لاکھ 67ہزار کیسز حل کئے گئے ہیں، لاء اینڈ جسٹس کمیشن میں کسی حاضر جج کو نہیں ہونا چاہیے، عوام فوری اور سستے انصاف کیلئے سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے، یہ عوامی جمہوریت نہیں ہے، اشرافیہ کی جمہوریت ہے، جس سے عوام کو کوئی فائدہ نہیں، آئین کے آرٹیکل 63Aمیں ترمیم کر کے ایوان نے خود اپنے ہاتھ کاٹ دیئے، اس پر ترمیم لے کر آئیں، کھانے میں چھپکلی گرنے پر سوموٹو لیا جاتا ہے اور سب کو بلایا جاتا ہے، جوڈیشل اکیڈمی کو فعال بنایا جائے، ہمارے ججوں کو جوڈیشل اکیڈمی جانے کی زحمت ہی نہیں ہوتی، ہمارا نظام ناقص ہو گیا ہے، اس کے نقائص دور کئے جائیں، کرپشن جیسے سرطان پر تبھی قابو پایا جا سکتا ہے۔

(جاری ہے)

وہ بدھ کو سینیٹ کی کمیٹی آف ہول کے اجلاس سے فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے اپنی تجاویز دے رہے تھے۔ ایس ایم ظفر نے کہا کہ میں نے 60 سال سے زائد کا عرصہ صحرائے قانون میں گزارا ہے، آج ہمارا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے، اس نظام کے نقائص کو دور کر کے ہم کرپشن جیسے سرطان پر قابو پا سکتے ہیں، مگر ’’ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے‘‘ فوجی عدالتوں کے سپریم کورٹ کی جانب سے کئے گئے فیصلے پر انہوں نے کہا کہ اس فیصلے کو کم صفحوں پر بھی لکھا جا سکتا تھا مگر اس فیصلے کو اتنا ظویل دیا گیا کہ وہ پڑھنا بھی محال ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بیرون ممالک میں جوڈیشل اکیڈمی ججز کی استعداد کار بڑھاتی ہے گر ہمارے ججوں کو وقت نہیں ملتا کہ وہ جوڈیشل اکیڈمی میں جائیں اور اپنا دماغ روشن کریں جب تک دماغ روشن نہیں ہوں گے تب تک انصاف کہاں سے ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ جمہوریت اشرافیہ کی جمہوریت ہے اور عوام کو اس سے کوئی فائدہ نہیں، جرگہ اور پنچائیت کے نظام کو فعال کرنا چاہیے، ہمسایہ ملک میں اسی نظام کے تحت 9لاکھ 67ہزار کیسز کو حل کیا گیا ہے، عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی کیلئے سرجیکل آپریشن کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کھانے میں ایک چھپکلی بھی گرنے پر سوموٹو لیا جاتا ہے اور لوگوں کو بلایا جاتا ہے، اگر جوڈیشل اکیڈمی کو فعال کیا جائے اور سول کورٹ میں ہی عوام کو انصاف دلایا جائے تو سوموٹو کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ اس موقع پر سیکرٹری قانون و انصاف سرداررضا نے کمیٹی کو بتایا کہ پولیس اور عدلیہ کے نظام کو ٹھیک کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور ہم اس پر کام کر رہے ہیں اور امید ہے کہ بہت جلد اس پر کام شروع کریں گے۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے ایس ایم ظفر اور سیکرٹری قانون و انصاف سردار رضا خان اور دیگر قانونی ماہرین کا بھی شکریہ ادا کیا، تمام قانونی ماہرین نے سینیٹرز کے سوالوں کے جواب دیئے۔

متعلقہ عنوان :