دیوانی مقدمہ ایک سال سے زیادہ نہیں چلنا چاہیے، پنچائیت اور اے ڈی آرکے نظام کووضع کرنے کی ضرورت ہے، چوہدری اشرف گجر

جمعرات 20 اگست 2015 21:38

اسلام آباد ۔ 20 اگست (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 20 اگست۔2015ء) سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور قانونی اصلاحات کیلئے وزیراعظم کی طرف سے بنائی گئی کمیٹی کے کنوینئر چوہدری اشرف گجر نے کہا ہے کہ دیوانی مقدمہ ایک سال سے زیادہ نہیں چلنا چاہیے، پنچائیت اور اے ڈی آرکے نظام کووضع کرنے کی ضرورت ہے، عدالتیں وکلاء کو نہیں ججوں کو ریگولیٹ کرنا چاہیے، اصلاحات کمیٹی نے اپنا کام مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو پیش کر دی ہے۔

جمعرات کو ایوان بالا کی خصوصی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے چوہدری اشرف نے کہا کہ وزیراعظم نے اصلاحات کیلئے کمیٹی تشکیل دی۔ سول اور کریمنل شعبہ جات میں اصلاحات کیلئے کمیٹی نے کافی کام کیا ہے اور مختلف ماہرین اور متعلقہ حکام سے ملاقاتیں کر کے ان کی آراء بھی حاصل کی ہیں۔

(جاری ہے)

کمیٹی نے بغیر کوئی پیسہ خرچ کیے اور سرکاری خزانے پر بوجھ ڈالے بغیر اپنا کام کیا ہے ار سفارشات پیش کی ہیں اس کیلئے ہائیکورٹس اور صوبائی حکومتوں سے بھی معاونت حاصل کی گئی ہے اور ان کی آراء کو بھی حاصل کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایوان بالا نے اس حوالے سے بہت مثبت اقدام کیا ہے، سول مقدمات برسوں عدالتوں میں زیرالتواء رہتے ہیں، نوٹری پبلک اور اوتھ کمشنر کا تصدیق کا نظام ٹھیک نہیں، اس نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تا کہ رجسٹریشن کا مناسب نظام موجود ہو، نوٹری پبلک اور اوتھ کمشنر کو اب ختم ہونا چاہیے۔ ایف آئی آر جھوٹی درج کرانے پر سزا نہیں ہوتی، اس کی سزا کم سے کم 7سال ہونی چاہیے۔

من گھڑت جھوٹے مقدمات پر جج کو فیصلے میں واضح کرنا چاہیے کہ یہ مقدمہ جھوٹا اور من گھڑت ہے اور اس کا جرمانہ زیادہ ہونا چاہیے، فریقین کی طلبی کا نظام ٹھیک ہونا چاہیے اس کیلئے نادرا سے بھی مدد لی جا سکتی ہے۔ نادرا اورجوڈیشل سسٹم کو لنک کیا جا سکتا ہے، طلبی کیلئے صرف پتہ کافی نہیں، موبائل فون نمبرز، ای میل اور دیگر تفصیلات بھی فراہم کی جانی چاہئیں، عدالتوں کو پہلی پیشی پر یہ جائزہ لینا چاہیے کہ کیا کیس بنتا ہے یا نہیں اکثر کیسوں میں 2سال بعد فیصلہ آتا ہے کہ کیس بنتا ہی نہیں، اس سے عدالتوں پر کام کا بوجھ بڑتا ہے، حکم امتناعی اگر غلط بنیادوں پر ثابت ہو تو جرمانہ زیادہ ہونا چاہیے، فی الوقت جرمانہ بہت کم ہے، عدالتوں کے پاس روزانہ دو اڑھائی سو مقدمات کی کازلسٹ ہوتی ہے، ابتدائی مرحلے میں شیڈولنگ کانفرنس منعقد ہونی چاہیے جس میں طے ہوجائے کہ کیس کن مراحل میں مکمل ہو گا، یہ سسٹم کئی ممالک میں ہے، وکلاء کو شیڈول کے مطابق پابند ہونا ہو گا اس سے بلاوجہ التواء نہیں ہو گا،عدالتیں جج ریگولیٹ نہیں کر رہے، وکلاء کر رہے ہیں، نئے نظام سے بہتری آئے گی۔

اسلام آباد میں 45جج ہیں روزانہ ہر جج کے پاس 100مقدمات لگتے ہیں، ججوں کی تعداد بھی بڑھانے کی ضرورت ہے، کئی بار مقدمہ فعال ہونے میں کم اور عملدرآمد ہونے میں زیادہ وقت لگتا ہے۔ چیئرمین نے کہا کہ سفارشات پر مبنی رپورٹ ایوان بالا کو موصول ہو چکی ہے اس رپورٹ پر نکتہ ور بات نہ کریں، مجموعی صورتحال کے حوالے سے بات کر لیں۔ اشرف گوجر نے کہا کہ جب تک عدالتوں کو جج ریگولیٹ نہیں کریں گے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

جوڈیشنری کو لازمی سروس ڈیکلئر کیا جائے، آئے روز کی ہڑتالوں سے عوام کا نقصان ہوتا ہے، وکلاء پر بھی چیک آنا چاہیے، اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ نہ کر سکے وہ وکیل اور جس کی وکالت نہ چلے وہ جج بن جاتا ہے۔ قانون کی تعلیم کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے بار کونسلز ایکٹ میں بامعنی ترامیم کی ضرورت ہے، ثالثی کے نظام اور پنچائتی نظام کو وضع کرنے اور ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے تا کہعدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو ثالثی کیلئے مقدمات بھجوانے کا اختیار ہونا چاہیے۔ چیئرمین نے کمیٹی کے کام اور سفارشات کو سراہا اور اشرف گجر کو بہترین اور جامع رپورٹ پیش کرنے پر مبارکباد دی اور کہا کہ اس سے ارکان اور ایوان بالا کمیٹی بہت استفادہ کر سکتی ہے۔ اعظم سواتی کے سوال پر چوہدری اشرف گجر نے کہا کہ اصلاحات کمیٹی ن ے سفارشات کی تیاری میں وکلاء پر بھی مشاورت کی ہے اور وکلاء کو بھی مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کا ذمہ دار قرار دیا ہے، کوئی بھی دیوانی مقدمہ ایک سال سے زیادہ نہیں چلنا چاہیے، اس کیلئے قانون بنانے کی ضرورت ہے، جھوٹے مقدمات کا اس سے بھی کم وقت میں فیصلہ نا چاہیے، جج اگر مقررہ وقت میں فیصلہ نہ کر سکے تو اسے عدالت کو جوابدہ ہونا چاہیے، فرحت اللہ بابر نے بھی اشرف گجر کو بہترین رپورٹ پیش کرنے پر مبارکباد دی، فرحت اللہ بابر کے سوال کے جواب میں اشرف گجر نے بتایا کہ اصلاحات کمیٹی نے رپورٹ وزیراعظم کو پیش کر دی ہے اور اس کا کام اب ختم ہو چکا ہے، پنچائت اور اے ڈی آر میں شہریوں و شامل کیا جائے اور ان کو مقدمات کے فیصلوں کیلئے ریگولیٹ کیا جائے، بھارت میں لوک عدالتیں کام کر رہی ہیں، یہ نظام ہمیں لانا چاہیے، جوڈیشری اور لاء اینڈ جسٹس کمیشن کو یہ کام کرنا چاہیے جو یہ ایوان کر رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جہاں قابل جج صاحبان موجود ہیں وہ اب بھی کم وقت میں فیصلے کرتے ہیں۔ تاریخیں لینے والا لامتناہی سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔ چیئرمین نے کہا کہ اس سلسلے میں قوانین موجود ہیں ان پر عملدرآمد کی ضرورت ہے، وکلاء اور جوڈیشل سسٹم کو لازمی سروس میں لانا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی، یہی میری ذاتی رائے ہے۔ انہوں نے جامع بریفنگ پر کمیٹی کے کنوینئر اشرف گجر اور سابق پولیس افسران کا شکریہ ادا کیا۔