قصور جنسی سکینڈل ، پولیس غافل،مر خاموش رہے، ماﺅں نے واویلا کیا،سیاسی کردار بھی افسوسناک‘ ایچ آر سی پی کی فیکٹ

جمعہ 21 اگست 2015 12:29

قصور جنسی سکینڈل ، پولیس غافل،مر خاموش رہے، ماﺅں نے واویلا کیا،سیاسی ..

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔21اگست2015ء)انسانی حقوق کمیشن نے قصور کے گاﺅں حسین والا میں بچوں کے جنسی استحصال اور ویڈیو کلپس بنانے کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جاری کردی ہے جس میں استحصال کرنے والوں کے ساتھ ساتھ گایﺅں کے لوگوں ، سیاسی رہنماﺅں اور کارکنوں اور قانون کے رکھوالوں کے کردار اور خاموشی پر حیرت کا اظہار کیا گیا ہے اور اس معاملے کی تفتیش کی کڑی مانیٹرنگ کی تجویز دی گئی ہے ، رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اس معاملے کو اراضی کی بنیاد پر سکینڈالائز کرنے کا خیال قطعی طور پر غلط ہے اور اراضی کا معاملہ جنسی سکینڈل سے نتھی نہیں کیا جانا چاہئے ، جنسی استحصال کا شکار ہونے والے بچوں کو طبی امداد دی جانا اور نفسیاتی مشاور کی جانا چاہئے ، کمیشن نے اس کیس کی مکمل مانیٹرنگ اور پیروی کرنے کی تجویز بھی دی ہے ۔

(جاری ہے)

کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اس معاملے میں فرائض سے غفلت ، ملزموں سے ملی بھگت ، متاثرہ افراد سے تعاون نہ کرنے کی مرتکب ہوئی ہے ۔ کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ بچوں سے زیادتہی کے معاملے کا گاﺅں کے مردوں کو علم تھا لیکن یہ معاملہ اس وقت ہی منظرِ عام پر آسکا جب خواتین کو علم ہوا اور انہوں نے اس پر آواز بلند کی جبکہ ایک خاتوں بشیراں کو پ]علیس کی بدسلوکی کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔

رپورٹ میں کہا گہیا ہے کہ بچوں کے جنسی استحصال کی ویڈیوز کی اہانت آمیز نوعیت اوردونوں اطراف کے کئی افراد کے ساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے گاو ¿ں کے لوگ کئی ماہ تک اس معاملے پر خاموش رہے۔بہت سے والدین/ خاندان ےہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے بچوں کے ساتھ کیا ہو رہا تھا۔ بہت سے متاثرہ بچے اپنے خاندانوں کے پیسے اور زیورات چرا رہے تھے تاکہ وہ ان ملزمان کو بھتے کی رقم ادا کرسکیں جو انہیں بلیک میل کررہے تھے اور ویڈیوز کو منظرعام پر لانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔

والدین اس چوری کا علم ہونے پر اپنے بچوں کی سرزنش کرتے لیکن چوری کے مقدمات درج نہ کراتے۔ تاہم چند ایسے خاندان بھی تھے جنہوں نے اس سکینڈل کو منظرعام پر آنے سے روکنے کے لئے ملزمان کو رقم کی ادائیگی کی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واضح ہوتا ہے کہ مجرموں نے بچوں کی بڑی تعداد کے ساتھ جنسی درندگی کا ارتکاب کروانے کا جرم کیا ہے، بلکہ یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ یہ بہیمانہ عمل برسوں سے کم ازکم 2010ءسے جاری ہے۔

جبکہ یہ گھناﺅ نا فعل شروع ہونے کے وقت ان کی عمریں دس سے سولہ برس کے درمیان تھیں، ان کی کئی سو ویڈیو فلمیں بنائی گئی تھیںتاہم یہ بات یقین سے نہیں کی جاسکتی کہ اس میں کتنے بچے ملوث تھے۔ اس معاملے میں کتنے بچوں کے خلاف جو جرم کیا گیا ہے، وہ تعداد جاننا اتنا اہم نہیں ہے۔ بات یہ ہے کہ ان جنسی فعال میں ایک ہی گاﺅں اور قریب ہمسائیگی میں رہنے والے متعدد بچوں کو ملوث کیا گیا ہے۔

یہ بات صحیح تسلیم کی جاسکتی ہے کہ جو فعل کیا گیا، اس کے بارے میں صرف ویڈیو فلمیں ہی انکشاف کرسکتی ہیں۔ بہرحال ٹیم اس حقیقت سے باخبر ہے کہ بچوں کی عمروں کے حوالے سے دیکھا جائے تو اس قسم کے عمل میں ان کی شمولیت کو ان لوگوں کی زیادتی اور زبردستی ہی جانا جائے گا جو اس عمل کی فلمیں بنارہے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صاف اور واضح شہادت موجود ہے کہ اس گاﺅں کے بچوں کے خلاف ایک بہمیانہ جرم کیا گیا چنانچہ اراضی کا تنازعہ بے معنی ہوجاتا ہے۔

اور ریاست کا یہ فرض ہے کہ وہ واقعہ کی بھرپور تحقیقات کرکے ا اس امر کو یقینی بنائے کہ ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو اپنے مفادات کی خاطر اس سیکنڈل کو استعمال کررہے ہیں۔ ظلم کے شکار بچوں کے خاندانوں کی درج کرائی گئی شکایات پر عملدرآمد کیا جائے۔ اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ تحقیقات ایماندارانہ اور غیر جانبدارانہ طور پر ہونی چاہئے۔

چنانچہ اس ساری صورتحال کے پیش نظر ٹیم ضروری نہیں سمجھتی کہ اراضی کے معاملہ کو اس جرم کے ساتھ نتھی کیا جائے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جرم اس لئے چھپا رہا کہ بھتہ کی رقم یا تو بچے ادا کرتے رہے یا پھر ان کے خاندان والے مجرموں کو ادا کرتے رہے۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے یہ بھی ہ اخذ کیا کہ بھتہ وصول کرے اور بلیک میلنگ کی کچھ شہادتیں موجود تھیں۔

اور پولیس کے پاس شکایات بھی کی گئی تھیں اور سکینڈل منظرِ عام پر آتے ہی پولیس کا رویہ زیادہ معاندانہ ہوگیا ´۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی رپورٹوں کا واحڈ مقصد یہ لگتا ہے کہ زمین کے تنازع کو ریکارڈ پر لے آیا جائے اور جنسی درندگی کے شکار بچوں اور ان کے خاندانوں کی درج کرائی گئی شکایات کو بے معنی کروایا دیا جائے۔ اس معاملے میں سیاسی مداخلت کے بارے میں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فیکٹ فائنڈنگ ۔

۔ٹیم نے پولیس پردباﺅ ڈالنے کے بارے میں متعدد افراد کی شکایت سنی ۔ یہ شکایت کسی ایک شخصیت کے حوالے سے نہیں تھی مقامی ایم پی اے کی مجرموں سے رشتہ داری کی بنیاد پر مدد ے بارے میں کوئی ٹھوس اطلاع حاصل نہیں کرسکی جس سے یہ کہا جاسکے کہ کسی ایک فرد یا گروپ کو مجرموں کے حق میں سیاسی طور پر استعمال کیا گیا ہے بہرحال یہ حقیقت ہے کہ پولیس کا رویہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بعض رہنماﺅں کے بیانات نے ایسا تاثر قائم کیا جیسے یہ لوگ اپنے عہد سے مکر گئے ہوں اور وہ ظلم کے شکار بچوں اور ان کے خاندانوں کو انصاف دلانے میں سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں۔

خاص طور پر رانا ثناءاللہ نے پورے واقعہ ہی کو جھوٹا قرار دیا اور کہا کہ مفاد پرست افراد نے زمین کے تنازعہ کو یہ رنگ دے کر صورتحال کو بگاڑ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بظاہر یہ واقعہ ایسا تھا کہ اس کو سیاسی رنگ دے کر اچھالا جاسکتا تھا، یہ بھی ہوسکتا تھا کہ متاثرہ خاندانوں کے افراد کی بجائے مظاہروں کے بارے میں فیصلہ سیاسی جماعتوں سے متعلق لوگ کرتے لیکن اپنی شکایات کے حوالے سے معاملات کا جائزہ خود ان لوگوں ہی نے لیا۔

تاہم کچھ فیصلے متاثرہ خاندانوں سے ہٹ کر دوسرے لوگوں نے لئے۔ مثال کے طور پر وزیراعلیٰ کے گاﺅں میں آنے کا مطالبہ متاثرہ خاندانوں نے نہیں کیا تھا بلکہ ان کے نام نہاد حمائتیوں نے کیا تھا۔ فیکٹ فائنڈنگ ٹیم نے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کے کردار پریشان کن پایا۔ ٹیم نے کچھ سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں اور کارکنوں کو یہاں دیکھا۔ ان سب نے یہاں پر صوبائی حکومت خلاف کافی زہر اگلا لیکن انہوں نے بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی اور ان کے استحصال کو روکنے اور بچوں کو تحفظ دینے کی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی۔

ان میں سے کوئی ایک ایسا نہیں تھا جس نے اپنی طویل تقریروں میں اس سماجی مسئلہ پر کوئی بات کی ہو اور نہ ہی یہ ذکر کیا کہ وہ اس معاملے میں کوئی اقدام کریں گے۔ ٹیم کے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ ان میں سے کوئی بھی پولیس سے نہیں ملا تاکہ تفتیش کے بارے میں معلومات حاصل کرسکے۔ اس طرح ٹیم ان کے بارے میں یہی کہہ سکتی ہے کہ ان کا مقصد اس صورتحال کو حکومت کے خلاف استعمال کرنا تھا، کسی سیاسی رہنما نے اس گاﺅں کا نہ تو دور کیا اور نہ ہی ظلم کے خاندانوں کو انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی۔

رپورٹ کے مطابق ٹیم اس نتیجے پر پہنچی کہ جسمانی اور نفسیاتی ردعمل کو نظرانداز کرنے سے متاثرہ بچوں پر ہونے والے اثرات اذیت ناک ہوسکتے ہیں،ان کے والدین سمیت کسی نے بھی ٹیم کے سامنے اس حوالے سے تشویش کا اظہار نہیں کیا،ٹیم تجویز کرتی پے کہ ان بچوں کو مناسب طبی امداد اور نفسیاتی مشاورت مہیا کی جائے۔ ان بچوں کے گھر والوں کی طرف سے ان کو ایسی توجہ نہیں دی گئی اور نہ ہی ان بچوں کے گھر والے ملزموں کے خلاف انصاف حاصل کرنے کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔

گاﺅں میں اس مسئلہ پر کوئی گفتگو اور بحث مباحثہ نہیں ہو رہا تھا کہ ایسے جرائم کو روکنے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے ،ان بچوں کی بحالی کے لئے نہ کسی این جی او کی خدمات حاصل کی گئیں اور نہ ہی اس قسم کے واقعات میں مدد مہیا کرنے والے ماہرین سے رابطہ قائم کیا گیا اور نہ ہی کوئی ادارہ اپنے طور پر گاﺅں میں آکر یہ خدمت سرانجام دینے کے لئے آگے بڑھا ہے۔

ٹیم نے سفارش کی ہے تفتیش کی مانیٹرنگ، ایک ہفتے بعد جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (JIT) سے ملاقات،چالان کے داخل ہونے تک مقدمے کی پیروی کی جائے اورموضع حسین خان والا کا دورہ کیا جائے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ تفتیش اطمینان بخش طور پر آگے بڑھی ہے یا نہیں۔ اس کے علاوہ یہ دیکھنا کہ مظلوموں کی بے عزتی کرنے کے حوالے سے صورتحال اب کیسی ہے