وزارت امور کشمیر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس کو ختم کرنا چاہیے، سردار خالد ابراہیم

جمعہ 21 اگست 2015 16:46

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21 اگست۔2015ء)جموں کشمیر پیپلز پارٹی کے سربراہ سردار خالد ابراہیم نے کہا ہے کہ وزارت امور کشمیر کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اس کو ختم کرنا چاہیے ،کشمیر کونسل کے اختیارات کو بھی کم کر کہ قانون سازی اور انتظامی اختیارات اسمبلی کو واپس ملنے چاہئیں۔ آزادکشمیر کے سیاسی حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کیونکہ ایک شخص جسے جماعتیں تبدیل کرنے کی عادت ہے وہ PTI میں گئے ہیں اس لیے کسی خاص تبدیلی کی توقع نہیں ہے تبدیلی 1970 میں آئی تھی جب پیپلز پارٹی ایک غیر ریاستی جماعت کے طور پر کشمیر میں آئی تھی اب ہمیں آزاد کشمیر میں ریاستی و غیر ریاستی جماعتوں کی تفریق ختم کرنا ہو گی۔

گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ کبھی نہیں بنایا جا سکتا ،مسئلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ ہے۔

(جاری ہے)

قائد اعظم نے کبھی یہ نہیں کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے وہ جمہوری آدمی تھے اور کشمیر کو خودمختار ریاست یا کشمیر کا بھارت سے الحاق بھی قبول کرنے کو تیار تھے۔بھارت صرف امریکہ کے کہنے سے سلامتی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا اسے پہلے اپنے گریبان میں جھاکنا ہو گا۔

آزاد کشمیر کے آئین کے مطابق چیف سیکرٹری کے پاس محدود اختیارات ہیں لیکن اسمبلی کی کمزوریوں کی وجہ سے چیف سیکرٹری حکومت ٓزادکشمیر پر حاوی رہتا ہے حالانکہ وزیر اعظم آزادکشمیر اس کا باس ہوتا ہے لیکن وہ اختیارات کا استعمال نہیں جانتے۔کشمیر کی خود مختاری کا آپشن اس صورت میں کارگر ہو سکتا ہے جب ایک نئی قرارداد لائی جائے اور اس وقت پاکستان اور بھارت دونوں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ میں کوئی نئی قرارداد لے آئیں اس لیے پہلے والی قراردادوں پر عمل کروانے کیلئے یکجا ہونا چاہئیے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے آن لائن سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات پونچھ حلقہ تین سے لڑوں گا اور تمام حلقوں میں جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اپنے امیدوار لائے گی۔1989 کی مسلح تحریک سے مسئلہ کشمیرکو ایک نئی جہت ملی اور عوامی تحریک ہونے کی وجہ سے مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اجاگر ہوا ۔مشرف کا چار نکاتی فارمولا عالمی دباؤ کا نتیجہ تھاجواس نے چالاکی سے ایسے پیش کیا کہ بھارت دفاعی پوزیشن پر آگیا تھا وہ فارمولا قابل عمل تھا نہ مسئلہ کشمیر کا حل تھا،LOC آر پار تجارت کا مطلب ہے کہ کشمیر میں بھارت کی آئینی رٹ کوپاکستان نے تسلیم کر لیا ہے ہم نے اس کی پہلے بھی مخالفت کی تھی اور اب بھی کرتے ہیں۔

بھارت نے مسئلہ کشمیر پر ابنے موقف کو بارہا تبدیل کیا لیکن پاکستان کا کشمیر پر ایک ہی موقف رہا ہے اور وہ پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 ہے آج تک اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جبکہ بھارت نے پہلے ریاست کا درجہ دیا پھر صوبائی سیٹ اپ دیا اور اب دفعہ 370 کو ختم کر کہ مستقل صوبنانے کی کوششیں کی جا ریہ ہیں آج تک عالمی برادری مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی کمٹمنٹ پوری نہیں کر سکی ۔

شملہ معائدہ پر کیے گیے سوال کہ جواب میں کہا کہ شملہ معائدہ میں بھی ایک ایسا نکتہ ہے جو بھارت اور پاکستان کو پابند کرتا ہے کہ بین الاقوامی معاملات پر ان کا موقف تبدیل نہیں ہو گا۔لہذا آ ج بھی کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت ختم نہیں ہوئی اس معائدے سے تھوڑا فرق ضرور آیا ہے لیکن بھارت چاہنے کے باوجود کچھ کر نہیں سکتا حکومت میں آتے ہی مودی نے اقوام متحدہ کے آبزرور گروپ کو نکالنے کی بات کی تو انہوں نے کہا کہ پہلے اقوام متحدہ میں اس کے لیے قرار داد لے آؤ ۔

آج بھی اقوام متحد کی قرار دادیں تازہ ہیں اور ان پر کسی معائدے سے کوئی فرق نہیں پڑتاہاں یہ ضرور ہیکہ پہلے کی نسبت بین الاقوامی دنیا کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے اس لیے ہمیں متحد ہو کر پہلے سے منظور شدہ قرار دادوں پر عملدرآمد کروانا ہوگا۔ BJP مقبوضہ کشمیر کے انتخابات میں دفعہ 370 ختم کرنے کا نعرہ لیکر آئی تھی لیکن کشمیر کے عوام اور تمام سیاسی جماعتوں نے اس کی مخالفت کی اور اگر آج BJP ختم کر بھی لیتی تو آگے آنے والی حکومت پھر سے دفعہ 370 بحال کر دیتی ویسے بھی اب لوگ BJP کی پالیسیوں سے تنگ آ چکے ہیں دہلی میں ان کی حالت دیکھ لیں 70 میں سے صرف تین نشستیں حاصل کر سکی۔

اور کشمیر میں بھی لوگوں نے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ مرکز کی پالیسیوں کو نہیں مانتے۔گلگت بلتستان کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کبھی پاکستان کا صوبہ نہیں بن سکتا ہے کیونکہ پاکستان کے آئین کے مطابق یہ مسئلہ کشمیر کے حل تک متنازعہ رہے گا اس لیے اسے جو بھی سیٹ اپ دیا گیا ہے اس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے ۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کی بارہا کوششیں کی اب بھی نواز شریف نے کوشش کی تھی لیکن بھارت کی نیت اور روش میں کوئی تبدیلی نہیں آتی یہ صرف بندوق کی زبان سمجھتا ہے ۔بھارت صرف امریکہ کے کہنے سے سلامتی کونسل کا مستقل ممبر نہیں بن سکتا اسے پہلے اپنے گریبان میں جھاکنا ہو گا اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ امریکہ نے اس کی حمایت کا کہا ہے اب پاکستان کو اپنی پالیسیاں ابامہ کے اس اعلان کو مد نظر رکھ کر بنانا ہوں گی ۔

اس وقت بھارت بڑی آبادی کا ایک ملک ہے تجارت کیلئے دنیا کی توجہ کا مرکز ہے اس لیے مسئلہ کشمیر بیک فٹ پر چلا گیا لیکن جب بھارت کی رکنیت کی بات آئیگی تو مسئلہ کشمیر زیر بحث آئیگا اور اس کے بین الاقوامی تشخص کو نظر انداز نہیں کیا جا سکے گا۔آزاد کشمیر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیر امور کشمیر کی کوئی آئینی حیثیت نہیں ہے جبکہ کونسل ایک آئینی ادارہ ہے آج کونسل کی نسبت وزارت امور کشمیر کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔

کونسل کا مقصد بھی وفاق اور کشمیر میں رابطے کا کام کرنا تھا لیکن اس کو بے جا اختیارات دیدیے گئے جو ضیا الحق نے مارشلاء کے دور میں تفویض کیے ہمارا مطالبہ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ 1970 کے آئین کے مطابق جو اختیارات کشمیر اسمبلی کو حاصل تھے وہی بحال کیے جائیں اور قانون سازی کا اختیار اسمبلی کو واپس ملنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ آئندہ انتخابات پونچھ حلقہ تین سے لڑوں گا اور تمام حلقوں میں جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اپنے امیدوار لائے گی ۔

ہمارا اتحاد مسلم لیگ ن سے مئی 2016 تک ہے اور آئندہ بھی اتحاد ہو سکتا ہے لیکن آئندہ اتحاد موجودہ شرائط پر نہیں ہو گا بلکہ نئی شرائط پر ہو گا ۔سیاسی حالات میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی کیونکہ ایک شخص جسے جماعتیں تبدیل کرنے کی عادت ہے وہ PTI میں گئے ہیں اس لیے کسی خاص تبدیلی کی توقع نہیں ہے تبدیلی 1970 میں آئی تھی جب پیپلز پارٹی ایک غیر ریاستی جماعت کے طور پر کشمیر میں آئی تھی اب ہمیں آزاد کشمیر میں ریاستی و غیر ریاستی جماعتوں کی تفریق ختم کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے دو الیکشن میں لوگ سکولوں کی تعمیر کا نعرہ لگا کر آئے لیکن ابھی تک کچھ نہ کیا ۔لوگوں نے ہمیشہ غلط قیادت کا انتخاب کیا ہے جو سوالیہ نشان ہے آج یہ پاکستان کو الزام دے رہے ہیں جو سراسر غلط ہے کیو نکہ حکومت پاکستان نے فنڈز ایرا سیرا کو دیے تھے اب یہ ان سے نہ لے سکے تو اسمیں پاکستان کا کیا قصور ہے؟اور یہ سب عوام کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔