پی اے سی کی عملدرآمد اور مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں وزارت ریلوے کے 184افسروں کو بے قاعدگی سے 453پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا انکشاف

ایک افسر کو ایک پلاٹ دینا چاہیے تھا ، ایک افسر کو کئی پلاٹ دینا زیادتی ہے ، وزارت ان سے کیسے پلاٹوں کی قیمتیں وصول کرے گی، اکثر افسرفوت ہو گئے ہیں،کمیٹی کابرہمی کا اظہار

جمعہ 21 اگست 2015 19:06

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 21 اگست۔2015ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی عملدرآمد اور مانیٹرنگ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ وزارت ریلوے کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے 184افسروں کو 453پلاٹس بے قاعدگی سے الاٹ ہوئے ہیں، ان افسران نے ناجائز ذرائع اور منصب کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ پلاٹ حاصل کئے ہیں، کمیٹی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک افسر کو ایک پلاٹ دینا چاہیے تھا مگر یہاں ایک افسر کو کوئی پلاٹ دینا دوسروں کے ساتھ زیادتی ہے اور اب تک کئی افسروں نے ان پلاٹوں کی قیمتیں بھی ادا نہیں کیں، اب وزارت کیسے وصول کرے گی، ان میں اکثر فوت ہو گئے ہیں۔

جمعہ کو پی اے سی کی عملدرآمد اور مانیٹر نگ کمیٹی کا اجلاس کنوینئر کمیٹی رانا افضال حسین کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں وزارت ریلوے اور مواصلات کی مالی سال 1996-97 کی آڈٹ رپورٹ پیش کی گئی۔

(جاری ہے)

آڈٹ حکام کی جانب سے وزارت ریلوے میں بے قاعدگی کا انکشاف ہوا۔ وزارت ریلوے کے گریڈ 17 اور اس سے اوپر کے 184 افسران کو 453 پلاٹس الاٹ ہوئے، ان افسروں نے نا جائز ذرائع اور منصب کا استعمال کرتے ہوئے یہ پلاٹ حاصل کئے ہیں، کمیٹی نے اس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک افسر کو ایک پلاٹ کی بجائے دو اور زائد پلاٹ دینا دوسروں کے ساتھ زیادتی ہے اور کئی افسروں نے اب تک پلاٹوں کی قیمتیں بھی ادا نہیں کی ہیں، اب وزارت ریلوے ان سے کیسے وصولی کرے گی جبکہ ان میں سے اکثر فوت بھی ہو گئے ہیں۔

کمیٹی نے ہدایت کی کہ اس پر رپورٹ ایک مہینے میں کمیٹی کے سامنے لائی جائے۔ اس پر سیکرٹری ریلوے پروین آغا نے کمیٹی کو بتایا کہ ان میں 86 افسروں نے خود پیسے جمع کرا دیئے تھے ،5افسروں سے نیب کے ذریعے وصول کئے گئے40 پر بعد میں جرمانہ عائد کر کے ان سے وصول کئے گئے اور 49افسران اس معاملے کو عدالت میں لے گئے ہیں، عدالتی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔

پروین آغا نے کمیٹی کو ریلوے کی زمینوں کے حوالے سے بتایا کہ ریلوے کے پاس جو زمین ہے وہ ابھی بھی متنازعہ ہے اور ہماری کوشش ہے کہ اس سال یہ معلوم کریں گے کہ ہماری کتنی زمین پورے پاکستان میں ہم نے مارچ 2015 میں یہ منصوبہ شروع کیا تھا اور 18 ماہ میں اس کو مکمل کر دیا جائے گا اور پنجاب میں دو مہینوں کے بعد پتہ چل جائے گا کہ ریلوے کی کتنی زمینیں ہیں۔

سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ تمام صوبے ریلوے کو اس کی زمینیں دیں مگر سوائے خیبرپختونخوا کے علاوہ کسی صوبے نے اب تک ریلوے کو زمینیں حوالے نہیں کیں، سیکرٹری ریلوے کی جانب سے تقریباً دو کروڑ روپے کی لاہور ریلوے سٹیشن پر ٹائلزلگانے کا ریکارڈ موجود نہ ہونے کی بات کی گئی تو کمیٹی نے کہا کہ ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ کہیں ریکارڈ گم ہو جاتا ہے یا پھر جل جاتا ہے۔

بعض اداروں میں صرف زبانی احکامات جاری کر دیئے جاتے ہیں اور بعد میں محکمے ان پیسوں کا حساب نہیں دے سکتے، اس پر ابھی تک ذمہ داروں کا تعین کیوں نہیں کیا گیا اور صرف رجسٹر کی گمشدگی کی ایف آئی آر سے کام نہیں چلے گا، ایک مہینے میں کمیٹی کو رپورٹ کی جائے۔ سیکرٹری ریلوے نے کمیٹی کو بتایا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ریلوے کی کارکردگ یکو بہتر بنایا جائے، اس کیلئے مئی 2015 میں ریلوے بورڈ بھی تشکیل دیا گیا ہے، حکومت نے دو سالوں میں جو ہدف دیا تھا، ریلوے نے اس سے زیادہ کمایا ہے، پچھلے سال ہمیں28 ارب کا ٹارگٹ دیا گیا تھا اور 31.9 ارب روپے کمائے ہیں، جن میں سے مسافروں سے 12 ارب اور کارگو سے 8ارب روپے اور باقی مارکیٹنگ زمینوں اور سکریپ کی فروخت سے آمدن ہوئی ہے۔

سیکرٹری نے کہا کہ ہمارے پاس سٹاف کی کمی ہے، ہماری ضرورت 96 ہزار ہے جبکہ اس وقت ہمارے پاس 78 ہزار ملازمین ہیں اور گزشتہ کئی سالوں سے بھرتیاں نہیں ہوئی، اب ہمیں 1400 بھرتیوں کی اجازت دی گئی ہے، لوکوموٹو ورکشاپ کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس پر کام ہو رہا ہے، رسالپور لوکوموٹو ورکشاپ اور کیرج فیکٹری اسلام آباد میں بہترین ورکشاپس ہیں۔ اس پر کمیٹی نے ہدایت کی کہ غیر ملکی ماہرین کو بلایا جائے اور اسے مزید بہتر بنایا جائے۔ کمیٹی نے وزارت مواصلات کو ہدایت کی کہ وہ اپنے تمام پیراز کی آڈٹ حکام سے تصدیق کروائیں اور اس کی رپورٹ کمیٹی کو دیں۔

متعلقہ عنوان :