بھارت میں پیاز پر سیاست ہوتی ہے، حکومتیں گر جاتی ہیں اور حکومت کچھ نہیں کر پاتی ،رپورٹ

منگل 25 اگست 2015 11:09

بھارت میں پیاز پر سیاست ہوتی ہے، حکومتیں گر جاتی ہیں اور حکومت کچھ نہیں ..

نئی دہلی (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25 اگست۔2015ء) بھارت میں پیاز پر سیاست ہوتی ہے، حکومتیں گر جاتی ہیں اور ذخیرہ اندوزی کے الزام سے گھرے تاجروں اور سیاست دانوں کے کٹھ جوڑ کے باوجود حکومت کچھ نہیں کر پاتی اور تقریباً ہر سال اسی وقت اس کے دام بڑھ جاتے ہیں۔ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق پیاز ہندوستان کے سب سے سیکولر کھانوں میں سے ایک ہے۔ اس کو ہندو بھی اتنے ہی شوق سے کھاتے ہیں جتنے کہ مسلمان۔

اس کا ذائقہ سبزی خور بھی لیتے ہیں اور گوشت خور بھی۔پیاز اگر کچن کے اندر آنسو بہانے پر مجبور کر دیتا ہے تو حکومتوں کے پسینے بھی چھڑا دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی حکومت پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو نہ پا سکی، جس کا اندرا گاندھی نے خوب فائدہ اٹھایا اور 1980 میں انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار دوبارہ حاصل کر لیا۔

(جاری ہے)

بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناسک میں پیاز کے کسانوں کے حقوق کے لیے لڑنے والے کسان کارکن گردھر پاٹل کہتے ہیں کہ آلو 12 ماہ پیدا کیا جاتا ہے.۔قومی باغبانی تحقیق اور ترقی کے ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر آر پی گپتا کہتے ہیں کہ پیاز ایک سیاسی فصل ہے۔ ان کے مطابق 1977 میں ایک بار اٹل بہاری واجپائی پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت کے خلاف احتجاج میں اس کی مالا پہن کر پارلیمنٹ گئے تھے، اس کے بعد سے پیاز دو تین حکومتیں گرا چکا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ ایمرجنسی کے بعد جنتا پارٹی کی حکومت پیاز کی بڑھتی ہوئی قیمت پر قابو نہ پا سکی۔ڈاکٹر گپتا کہتے ہیں کہ پیاز کی شناخت غریبوں سے ہے۔ وہ کہتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا دیہی علاقوں میں غریب روٹی اور پیاز کھا کر گزارا کرتے ہیں۔

سمجھا یہ جاتا ہے کہ پیاز غریبوں کا اناج ہے۔راجیو منیار نوی ممبئی میں پیاز اور آلو کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

وہ پیاز اور آلو کے تجارت کی تنظیم کے اعزازی سیکرٹری ہیں۔ وہ کہتے ہیں پیاز کی اہمیت بڑھانے کی میڈیا ذمہ دار ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پیاز کی قیمت بڑھنے پر میڈیا لوگوں میں خوف و ہراس پھیلا دیتا ہے جس سے عام صارفین زیادہ قیمت پر پیاز خریدنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ راجیو منیار سوال اٹھاتے ہیں، ’اتر پردیش میں آلو کے تاجر فصل برباد ہونے سے پریشان ہیں۔

میڈیا نے اس پر کچھ کیوں نہیں کہا؟پیاز آلو سے کہیں زیادہ حساس ہے، یہ جلد خراب ہو جاتا ہے اور اسے زیادہ وقت تک ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔عام خیال یہ ہے کہ پیاز کی قیمت اسی وقت بڑھتی ہے جب تھوک فروش ذخیرہ اندوزی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن سچ کیا ہے؟تاجر راجیو منیار کہتے ہیں کہ ذخیرہ اندوزی کا الزام غلط ہے۔ ’پیاز منڈی میں صبح آتا ہے اور شام تک فروخت جاتا ہے. آپ گودام دیکھ آئیں۔

وہاں پیاز نہیں ہے۔ ذخیرہ اندوزی ممکن نہیں۔‘ ان کے مطابق حکومت ایسا سوچتی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہیں۔ پیاز آلو سے کہیں زیادہ حساس ہے، یہ جلد خراب ہو جاتا ہے اور اسے زیادہ وقت تک ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔کسان کارکن گردھر پاٹل کہتے ہیں اس کے ذمہ دار صرف تھوک فروش ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگست، ستمبر میں کسانوں کے پاس کوئی پیاز نہیں ہوتا۔

تمام تاجروں کے پاس ہوتا ہے۔ وہ دام طے کرتے ہیں۔ حکومت کا اس پر کوئی کنٹرول نہیں ہوتا۔گردھر پاٹل مہاراشٹر حکومت کے اتوار کو اٹھائے گئے قدم کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب حکومت نے اپنے افسر گوداموں پر چھاپے مارنے کے لیے ناسک بھیجے تو منڈی میں اچانک پیاز آنے لگے۔ ان کے مطابق پیاز کی قیمتیں بڑھنے کا فائدہ صرف تاجروں کو ہوتا ہے، کسانوں کو نہیں۔

ڈاکٹر گپتا کے مطابق پیداوار کی کمی نہیں ہے۔ ربیع کی فصل کی 30 فیصد پیداوار گوداموں میں رکھی جاتی ہے جسے اگست، ستمبر میں منڈیوں میں لایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق خریف کی فصل ٹھیک نہیں ہوئی ہے جس کا اثر اکتوبر، نومبر میں ہوگا۔ اس کو ذہن میں رکھتے ہوئے تاجر آہستہ آہستہ پیاز مارکیٹ میں بھیج رہے ہیں جس کی وجہ سے دام بڑھ گیا ہے۔مرکزی حکومت نے 10 ہزار ٹن پیاز درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے۔

درآمد کیے گئے پیاز منڈی میں 15 ستمبر تک آ سکیں گے۔ تھوک منڈی میں درآمد کیے گئے ایک کلو پیاز کی قیمت 45 روپے سے کم نہیں ہوگی جو آج فروخت کر رہے پیاز کی قیمت کے برابر ہو گی۔مرکزی حکومت نے 10 ہزار ٹن پیاز درآمد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے کوئی خاص فائدہ ہونے کا امکان کم ہے ظاہر ہے اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔ ڈاکٹر گپتا کہتے ہیں سوال پیاز کی دستیابی کا نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’پیاز کا سٹاک کافی ہے. اسے منڈی میں میں لانے کی ضرورت ہے۔راجیو منیار کہتے ہیں پیاز کی درآمد نجی طور پر تاجر پہلے سے ہی کر رہے ہیں. منیار کہتے ہیں، ’مصر اور افغانستان سے روز پیاز درآمد ہو رہا ہے۔ درآمد میں تو فائدہ ہے لیکن حکومت نے درآمد کی شرائط اتنی سخت رکھی ہیں کہ اس کا تاجروں کو خاص فائدہ نظر نہیں آتا۔گردھر پاٹل کے مطابق درآمد بڑھنے یا برآمد پر روک لگانے سے صرف ایک مختصر وقت کے لئے فائدہ ہوگا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ’کھلا بازار‘ قائم کرے جس میں حکومت کا کوئی کام نہ ہو۔

متعلقہ عنوان :