لدھیانوی اور اسحاق میں سخت اختلافات تھے

اہل سنت والجماعت کی جانب سے ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت پر افسو س نہ کر نا اسکا وا ضع ثبو ت ہے ، اختلافات کا آغاز 14 سال جیل میں گزارنے کے بعد جولائی 2011 میں ملک اسحاق کی ضمانت پر رہائی سے ہوا، مبصرین ’ دہشت گردی، جارحیت اور دنگا فساد کی حمایت نہ کرنا پارٹی اور اس کے چیئرمین علامہ احمد لدھیانوی کی پالیسی ہے،ترجمان اہل سنت والجماعت

منگل 25 اگست 2015 13:43

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 25 اگست۔2015ء) دہشت گردی کے افسوس ناک واقعات اور آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے احمد لدھیانوی کی کالعدم تنظیم اہل سنت والجماعت اور ملک اسحاق کے گروپ لشکر جھنگوی کے درمیان اختلافات پر کسی کی نظر نہ جا سکی۔تاہم، 30 جولائی کو ملک اسحاق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت نے ان اختلافات کو واضح کر دیا کیونکہ مبصرین کے مطابق اہل سنت والجماعت نے نا تو پولیس مقابلے کی مذمت کی اور نا ہی کسی قسم کا احتجاج کیا۔

میڈیا میں بھی صرف کوئٹہ میں ہونے والا ایک ہی قابل ذکر احتجاج رپورٹ ہوا ، جسں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کچھ مظاہرین کو حراست میں لیا۔اہل سنت والجماعت اسلام آباد کے ترجمان عنیب فاروقی نے بتایا کہ ’ دہشت گردی، جارحیت اور دنگا فساد کی حمایت نہ کرنا پارٹی اور اس کے چیئرمین علامہ احمد لدھیانوی کی پالیسی ہے‘۔

(جاری ہے)

انہوں نے دعوی کیا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد میں 20 کارکنوں کی ہلاکت کے باوجود ان کی پارٹی نے چھوٹے موٹے مظاہروں کے علاوہ نقصان کرنے یا عوام کیلئے تکلیف کا سبب بننے والا قدم نہیں اٹھایا۔

بعض مبصرین کے خیال میں یہ خاموشی بناوٹی ہے کیونکہ لدھیانوی اور ان کی پارٹی کی مرکزی دھارے میں قبول کیے جانے کی خواہش ملک اسحاق کی ہلاکت پر احتجاج کرنے کی ضرورت سے کہیں مضبوط ہے۔

تاہم، یہ مکمل تصویر نہیں۔ درحقیقت اہل سنت والجماعت کی خاموشی کی وجہ احمد لدھیانوی اور ملک اسحاق کے درمیان اختلافات بتائے جاتے ہیں۔دنوں تنظیموں کے عہدے دار ان اختلافات سے انکار نہیں کرتے لیکن وہ ان کو ریکارڈ پر لانے سے گریزاں ہیں۔

بظاہر ملک اسحاق اور ان کے حامی لدھیانوی سے خوش نہیں تھے۔ ان اختلافات کا آغاز 14 سال جیل میں گزارنے کے بعد جولائی 2011 میں ملک اسحاق کی ضمانت پر رہائی سے ہوا۔لدھیانوی ملک اسحاق کی رہائی پر انہیں خوش آمدید کہنے جیل گئے اور دونوں نے بعد میں ایک ریلی سے بھی خطاب کیا۔تاہم، ملک اسحاق کے مقاصد سامنے آنے کے بعد لدھیانوی کی انہیں ایک سیاسی لیڈر میں تبدیل کرنے کی خواہش پر پانی پھر گیا۔

رہائی سے کچھ عرصہ پہلے ملک اسحاق سے ملاقات کرنے والوں میں مشہور عالم حافظ طاہر اشرفی بھی شامل تھے۔اشرفی نے بتایا ’ جب چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ملک اسحاق کی ضمانت منظور کی تو میں نے انہیں اپنے طور طریقے بدلنے پر قائل کرنے کی کوشش کی‘۔’ وہ میری بات مان گئے تھے لیکن بعد میں اپنے پرانے ساتھیوں (لینڈ مافیا) اور سپاہ صحابہ پاکستان کے رہنماوٴں کے قائل کرنے پر ملک اسحاق مخالف راستے پر چل پڑے‘۔

’ملک اسحاق سے 2013 میں ہونے والی آخری ملاقات کے دوران میں نے انہیں دو ٹوک الفاظ میں بتایا تھا کہ وہ لشکر جھنگوی ختم کرتے ہوئے اہل سنت والجماعت کی قیادت کا سیاسی مقابلہ کریں‘۔یقیناً، ملک اسحاق اور بہاولپور سے ان کے خاص معتمد غلام رسول کی اہل سنت والجماعت سے لڑائی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں تھی۔تعلیم القرآن ایکشن کمیٹی کے سابق رکن اور جے یو آئی ف سے تعلق رکھنے والے مفتی اویس سے جب اس لڑائی بابت پوچھا گیا تو انہوں نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مذہبی حلقوں میں اس پر غور ہوا تھا۔

’ہم سب نے سنا تھا کہ ملک اسحاق سے سنگین خطرات لاحق ہیں کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی راولپنڈی اور اسلام آباد کی اہم مساجد اور مدرسوں پر قبضہ چاہتے تھے‘۔یاد رہے کہ ماضی میں ملک اسحاق اور ان کے کارکن جنوبی پنجاب کی مساجد پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے۔بہاولنگر پریس کلب کے صدر گلزار احمد چودہدری نے بتایا کہ 2012 تک سپاہ صحابہ پاکستان کے بہاولنگر اور رحیم یار خان میں 80 سے 70 فیصد مساجد اور مدرسے ملک اسحاق گروپ کے کنٹرول میں چلے گئے تھے۔


ایسے میں جب اختلافات مزید گہرے ہو رہے تھے ، ملک اسحاق گروپ نے ضلع جھنگ میں نمایاں اثر و رسوخ پیدا کر لیا اور ایس ایس پی کے رہنما اعظم طارق کا بیٹا 2013 میں ملک اسحاق سے مل گیا۔مئی ، 2013 میں ہونے والے پارٹی الیکشن میں ملک اسحاق گروپ کو لدھیانوی گروپ کے ہاتھوں شکست ہو گئی۔اہل سنت والجماعت پنجاب کی صدارت کیلئے ملک اسحاق کے نامزد مولانا اعظم طارق کے بیٹے معاویہ اعظم اس الیکشن میں شمس الرحمان معاویہ کے 1200 ووٹوں کے مقابلے میں محض ایک درجن سے زائد ووٹ بھی حاصل نہ کر سکے۔

دسمبر، 2013 لاہور میں شمس الرحمان معاویہ کو گولی مار کر قتل کرنے کے واقعہ کے بعد ملک اسحاق کو اہل سنت والجماعت سے بے دخل کر دیا گیا۔اس ساری صورتحال پر نظر رکھنے والوں کے مطابق، ملک اسحاق کو پارٹی سے نکالنے کی وجہ یہ تھی کہ اہل سنت والجماعت کی اعلی قیادت کو شک تھا کہ اس قتل میں وہ ملوث ہیں۔تاہم، طاہر اشرفی پارٹی الیکشن میں شکست کی وجہ سے شمس الرحمان کو قتل کیے جانے کی سوچ سے اختلاف کرتے ہیں۔

’اس قتل کی وجہ پیسہ تھا کیونکہ وہ لینڈ مافیا کے انہی لوگوں سے خود ڈیل کرنا چاہتے تھے‘۔
کچھ مبصرین طاہر اشرفی کے اس اندازے سے اتفاق کرتے ہیں۔جھنگ میں اہل سنت والجماعت کے سیاسی حریف شیخ وقاص اکرم کا کہنا ہے کہ پارٹی اور اس کے وسائل پر قبضے کی لڑائی نے اندرون خانہ کئی گروپوں کو جنم دیا، جن میں سب سے نمایاں ملک اسحاق اور لدھیانوی کے گروپ تھے۔

شیخ وقاص کے مطابق، جیل سے رہائی کے فوراً بعد ملک اسحاق اور ان کے سابق ساتھیوں نے دعوی کرنا شروع کر دیا کہ اہل سنت والجماعت کی طاقت عسکریت پسندوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔’تاہم لدھیانوی اور ان کے گروپ کا کہنا تھا کہ پارٹی کے حصے بخرے ہونے سے بچانے کیلئے انہوں نے سر توڑ کوشش کی‘۔کچھ حلقے تو یہاں تک دعوی کرتے ہیں کہ دونوں کے درمیان دشمنی کی وجہ سے کئی قتل بھی ہوئے۔

حتی کہ انٹیلی جنس حکام یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت کے عہدے دار ملک اسحاق گروپ کا حصہ بن جانے والے اپنے ہی پرانے ساتھیوں کا نشانہ بنتے رہے۔ایک انٹیلی جنس افسر نے بتایا کہ اہل سنت والجماعت کے صدر اورنگزیب فاروقی کو شدید خطرات لاحق ہیں اور اسی وجہ سے انہیں گرفتار کیا گیا۔فاروقی اور ان کے اہل خانہ کو اسلام آباد داخلے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی پر 5 جون کو ٹیکسلا میں گرفتار کیا گیا تھا۔

تاہم، کچھ دن قبل فاروقی مری کے علاقے ایلوٹ میں ہونے والے جلسے میں مہمان خصوصی بنے اور راولپنڈی ضلع میں نقل و حرکت کرتے دکھائی دیے۔انٹیلی جنس افسر نے مزید بتایا ’فاروقی کی گرفتاری کی رات کچھ گھنٹوں کے احتجاج کے علاوہ پارٹی نے ان کی رہائی کیلئے نا تو دباوٴ ڈالا اور دو مہینے گزرنے کے باوجود نہ ہی ان کی ضمانت کیلئے عدالتوں میں سنجیدہ کوششیں کی گئیں۔

پارٹی حالات سے بخوبی آگاہ ہے‘۔اہل سنت والجماعت اسلام آباد کے ترجمان نے تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی کی موجودہ پالیسی کے خلاف عسکریت پسندی کا رجحان رکھنے کے سبب چیئر مین علامہ لدھیانوی نے ملک اسحاق کو دسمبر، 2013 میں پارٹی چھوڑنے کا کہا تھا۔یاد رہے کہ ریاض بسرا، ملک اسحاق، غلام رسول شاہ اور اکرم لاہوری نے جنوری، 1996 میں لشکر جھنگوی گروپ بنایا۔ان میں سے تین لوگ مارے جا چکے ہیں جبکہ اکرم لاہوری کراچی جیل میں سزائے موت کے منتظر ہیں۔

متعلقہ عنوان :