پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کاگھوسٹ پنشنرز سے متعلق وزارت خزانہ اور نیشنل بینک کے سربراہان کی رپورٹس پر عدم اطمینان کا اظہار، آئندہ اجلاس میں تفصیلات مانگ لیں

آپ کے پاس ثبوت نہیں ہیں کہ کتنے پنشنرز ہیں، یہ تو بہت بڑا سکینڈل ہے ، اگر کوئی پنشنرکسی نجی بینک یا ڈاکخانے کے ذریعے پنشن لیتا ہے تو اس کی بھی تفصیلات دی جائیں، گریڈ ایک سے گریڈ 16تک سرکاری ملازمین پنشن کیلئے دھکے کھاتے ہیں اور لاہور میں تو لوگ گرمی میں مر گئے ، چیئرمین پی اے سی اور ارکان کااظہارخیال این آر او کے تحفے کے بعد کتنے لوگوں کو قرضے معاف کئے گئے، اس حوالے سے بھی تفصیلات بتائیں، محمود اچکزئی

بدھ 26 اگست 2015 17:45

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 26 اگست۔2015ء) قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گھوسٹ پنشنرز کے حوالے سے وزارت خزانہ اور نیشنل بینک کے متعلقہ اداروں کے سربراہان کے جوابات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس ثبوت نہیں ہیں کہ کتنے پنشنرز ہیں، یہ تو بہت بڑا سکینڈل ہے، کمیٹی کو اس کی تفصیلات اگلے اجلاس میں دی جائیں، اگر کوئی پنشنرکسی نجی بینک یا ڈاکخانے کے ذریعے پنشن لیتا ہے تو اس کی بھی تفصیلات دی جائیں، گریڈ ایک سے گریڈ 16تک سرکاری ملازمین پنشن کیلئے دھکے کھاتے ہیں اور لاہور میں تو لوگ گرمی میں مر گئے۔

محمود خان اچکزئی نے کہا کہ کتنے لوگوں کو قرضے معاف کئے گئے، کیا سیکرٹری خزانہ کے پاس جواب ہے، این آر او کے ذریعے جو قرضے معاف کروائے گئے ان کی بھی تفصیلات بتائیں۔

(جاری ہے)

بدھ کو قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزارت خزانہ کی گرانٹس 2009-10 آڈٹ حکام کی جانب سے پیش کی گئیں اور اس پر اعتراضات کے جوابات سیکرٹری خزانہ وقار مسعود نے دیئے۔

اس موقع پر گھوسٹ پنشنرز کے حوالے سے کمیٹی کے سوال پر صدر نیشنل بینک نے بتایا کہ 2012میں پنشنرز کی تعداد کم تھی،2014میں یہ بڑھ گئی۔ اب ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کتنے ملازمین ریٹائر ہو رہے ہیں، اس پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بتایا کہ اگر نیشنل بینک ہم سے آڈٹ کرواتا تو یہ مسئلہ نہ آتا، یہ قومی ادارہ ہے پتہ نہیں یہ ہم سے آڈٹ کرواتے ہوئے کیوں کتراتے ہیں اور پرائیویٹ اداروں کی جانب سے نیشنل بینک کا آڈٹ ہوتا ہے، یہ ہمارے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔

کمیٹی نے کہا کہ نیشنل بینک کے آڈٹ کے حوالے سے اس مسئلے کو ایوان میں اٹھایا جائے گا، اس پر کمیٹی نے نیشنل بینک کو سیکرٹری خزانہ کو ہدایات جاری کیں کہ اگلے اجلاس میں تمام تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے ، کیونکہ آپ کی اب تک کی بریفنگ سے کمیٹی مطمئن نہیں ہے، یہ بہت بڑا سکینڈل ہے اور اخبارات میں بھی آ چکا ہے اور اگر کوئی پنشنر نیشنل بینک کے علاوہ نجی بینکوں یا ڈاکخانوں کے ذریعے پنشن لیتا ہے تو اس کی تفصیلات بھی کمیٹی کو فراہم کی جائیں۔

قرضوں کی معاشی کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا کہ بورڈ یا بینک کسی کا بھی قرضہ معاف نہیں کر سکتا جو بھی نادہندگان ہیں ان کو مارک اپ میں چھوٹ تو دی جا سکتی ہے، اس پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ این آر او کے تحفے کے بعد کتنے لوگوں کو قرضے معاف کئے گئے، اس حوالے سے بھی تفصیلات بتائیں، جس پر سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے پوچھ کر اگلے اجلاس میں کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔

سبڈیز کے حوالے سے کمیٹی کو بتایا گیا اس سال سبڈیز 120بلین رہ چکی ہیں اور اس کا تعین بجٹ میں کیا جاتا ہے اور یہ سبڈیز 400بلین تک بھی ہو سکتی ہیں اور جتنا حکومت پاکستان نے عوام کو سبڈی دی ہے، اتنی سبڈی کسی دوسرے ملک میں نہیں، ایف بی آر کا ریونیو 200ارب کم ہوا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کی کمپنیوں کی طرف سے بھی ریونیو کم ہوا ہے اور شیئرز سے جو آمدنی آتی تھی وہ بھی کم ہو چکی ہے، اس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اگر اب سیلز ٹیکس نہیں بڑھاتے تو پٹرول 60 روپے فی لیٹر ہوتا، پاکستان میں ٹیکس دینے کی شرح 0.4فیصد ہے اور انڈیا 3فیصد ہے، بنگلہ دیش میں 2.8فیصد ہے، ہمارا ایف بی آر کا محکمہ بالکل بھی کام نہیں کر رہا ہے، جن لوگوں کے پاس یہاں بڑی بڑی گاڑیاں ہیں ، ایسی گاڑیاں پوری دنیا میں نہیں لیکن یہاں ٹیکس غریبوں سے لیا جاتا ہے ، امیروں سے پھر بھی نہیں لیا جاتا، یہ یقیناً زیادتی ہے ، کسی سے ایف بی آر نے پوچھا ہے کہ آپ ٹیکس دیتے ہیں یا نہیں، ود ہولڈنگ ٹیکس کے حوالے سے سیکرٹری خزانہ نے کہا کہ اس ٹیکس کا مقصد آمدنی نہیں بلکہ لوگوں کو ٹیکس کے دائرے میں لے کر آنا ہے اور 2لاکھ نوٹسز جاری ہو چکے ہیں اور اس کے علاوہ ہمارے پاس کوئی راستہ نہیں اور اسی وجہ سے 1.8فیصد مہنگائی میں کمی واقع ہوئی، اس وقت معاشی لحاظ سے ہم مضبوط ہیں اور توانائی بحران پر 2017میں قابو پالیا جائے گا، 7000 میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی، اس وقت پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضے 16.5ٹریلین ہیں۔