وزیرِداخلہ لندن کا دورہ مکمل کرکے (آج) وطن واپس پہنچیں گے‘ وزیرِ داخلہ نے جراتمندانہ اور واشگاف الفاظ میں پاکستان کا موقف پیش کیا ‘ چوہدری نثار نے بھارت کی اشتعال انگیزیوں اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کی سازشوں کو بے نقاب کیا‘ کشمیر کے مسئلے پر پاکستانی اصولی موقف کا اعادہ کرکے سیاسی مخالفین اور خواہ مخواہ کی الزام تراشیاں کرنے والے عناصر کی کوششوں کو بھی ملیا میٹ کر دیا ‘ دورے میں ڈاکٹر عمران فاروق کیس پر اہم پیش رفت ہوئی‘ کراچی میں بھارتی مداخلت کے امور بھی زیر بحث آئے

وزیر داخلہ کا دورہ کامیاب تھا ‘ دہشت گردی کے خلاف جنگ ‘ افغانستان میں امن اور استحکام میں اور خصوصی طور پر کراچی کے حوالے سے وزیر داخلہ نے برطانوی حکام سے جو بات چیت کی مستقبل میں اس کے مثبت نتائج نکلیں گے معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کا انٹرویو

بدھ 2 ستمبر 2015 16:18

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء) وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان لندن کا سرکاری دورہ مکمل کرنے کے بعد آج وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔اپنی دیگر سرکاری مصروفیات اور ملکی حالات کے پیش نظر وزیرِداخلہ نے اٹلی کا دورہ منسوخ کر دیا۔ لندن میں وزیرِداخلہ کی مصروفیات میں اپنی برطانوی ہم منصب تھریسامے ، برطانوی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کم دارک اور برطانوی وزیرِخارجہ فلپ ہیمنڈ سے ملاقات کے علاوہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اہلکاروں سے بھی اہم ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔

ان ملاقاتوں میں پاک برطانیہ تعلقات ،سیکورٹی کے شعبے میں جاری دو طرفہ تعاون ، دہشت گردی کے خلاف جنگ، برطانیہ میں مقیم پاکستانی کمیونٹی کی خدمات و کردار اور دونوں ملکوں کے مابین تعلقات کو مزید فروغ دینے کیلئے مستقبل کے لائحہ عمل پر بات چیت ہوئیمعاملات سے باخبر ذرائع کے مطابق ان ملاقاتوں میں پاک برطانیہ تعلقات و تعاون خصوصاً سیکیورٹی کے شعبے میں انہانسڈ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کے تحت جاری تعاون پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور دونوں ملکوں کے مشترکہ مفادات کے پیش نظر تما م شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق رائے کیا گیا ان ملاقاتوں میں جہاں بھی دہشت گردی کے حوالے سے جب بات کی گئی تو وزیرِداخلہ نے اپنے موقف کو اعادہ کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ جہاں دہشت گرد عناصر کی سرکوبی کے لئے عالمی تعاون کو مزید فروغ دیا جائے وہاں بین الاقوامی برادری کی طرف سے اسلام فوبیا کا پرچار کرنے والے اور مسلمانوں کے مذہبی اقدار و جذبات کا تمسخر اڑانے والے عناصر کی بھی حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ شدت پسندی کے رحجانات اور اس قسم کے واقعات کو اجاگر کرکے لوگوں اور خصوصاً نوجوانوں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے اور ان کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے عناصر کی کوششوں کو ناکام بنایا جا سکے ۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ ساتھ وزیرِداخلہ نے یہ بھی واضح کیا کہ دہشت گردی کی عفریت کا مکمل خاتمہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دہشت گردوں کے مالی وسائل اور ان کو مالی معاونت کرنے والوں کے خلاف بھی عالمی سطح پر بھرپور کاروائی کی جائیدہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور ان کے خلاف عدالتی کاروائی پر بات چیت کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ نے زور دیا کہ دہشت گردوں کے خلاف عدالتی سطح پرجاری جنگ میں یہ امر از حد ضروری ہے کہ قانون نافذکرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور لیگل شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی قابلیت اور استعداد کار میں اضافہ کیا جائے تاکہ جو دہشت گرد گرفتار ہوتے ہیں ان کو قانون کے مطابق سزا دلوائی جا سکے اورکوئی بھی ملزم کمزور کیس یا قانونی پیچیدگیوں کا فائدہ نہ اٹھاسکیاسے ستم ظریفی ہی کہیں گے کہ بے شمار جانی اور مالی قربانیاں دینے والی قوم کو آج بھی "ڈو مور" کی آوازیں آتی ہیں ۔

اس ضمن میں وزیرِداخلہ کا برملا یہ کہنا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں اور قربانیوں کو نہ تو سمجھاگیا ہے اور نہ ہی اعتراف کیا گیا زمینی حقائق کے عین مطابق ہے یہی نہیں بلکہ مغرب میں جس انداز میں پاکستان میں انسانی حقوق اور سزائے موت کے حوالے سے جو پراپیگنڈہ کیا جاتا ہے وزیرِداخلہ نے اس پر بھی کھل کر بات کی اور کہا کہ اس سلسلے میں بہت سارا پراپیگنڈہ غلط اور بلا جواز ہے انہوں نے کہا کہ کچھ لوگوں اور گروہوں نے پاکستان کو بدنام کرنے کا ایجنڈااپنے ذمے لیا ہوا ہے۔

برطانوی اعلیٰ حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں وزیرداخلہ نے یہ واضح کیا کہ دہشت گردی کو اسلام سے نہ جوڑا جائے اور نہ ہی مدرسوں کو شدت پسندی کی تعلیم سے منسوب کیا جائے۔ شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو اس مسئلہ کی وجہ نہیں بلکہ اس مسئلہ کے حل کا حصہ سمجھا جائے اور یہ کہ دنیا کواس غلط روش اور پالیسی سے باہر آنا ہوگاکہ ہر داڑھی والا مسلمان مرد اور حجاب والی خاتون ممکنہ دہشت گرد ہوسکتے ہیں۔

اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسیی پر بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ برابری کی سطح پر دوستانہ تعلقات روزِ اول سے پاکستان کی فارن پالیسی کے بنیادی اور رہنما اصولوں کا حصہ ہیں۔تاہم اس بات کا افسوس ہے کہ افغانستان میں امن کے لئے کی گئی پاکستانی پرخلوص کوششوں کو منفی اور غیر ضروری اور غلط ردعمل کا نشانہ بنایا گیا ۔

برطانوی نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کے ساتھ بات کرتے ہوئے وزیرِداخلہ نے کہا کہ پاکستانی عوام امید کرتے ہیں کہ عالمی سطح پر دہشت گردی جیسے حساس معاملے پر کوئی تفریق یا امتیاز نہیں برتا جائے گا اور یہ کہ پاکستان امن کے لئے ہر قدم اٹھانے کے لئے تیار ہے مگر کسی کا تسلط یا اجارہ داری قبول نہیں کریگا۔پاک بھارت تعلقات پر جب بات چلی تو وزیرِداخلہ نے بغیر کسی لگی لپٹی صاف اور واشگاف الفاظ میں کہا کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے موجودہ حکومت نے ایک واضح موٴقف اپنایا ہے مگر دوسری طر ف سے اسی جذبے کا اظہار نہیں ہوا ۔ہندوستان نت نئے بہانے بنا کر امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کر رہا ہی اورخطہ کی سیکورٹی اور سلامتی کو داؤ پر لگا رہا ہے۔