سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے برسلز،نیویارک اور جنیوا میں ٹریڈافسران کی تقرریاں مستردکردیں ،بیرون ملک ٹریڈدفاتربندکرکے افسران کوواپس بلانے کی سفارش

ٹریڈدفاتر پاکستان سے جانے والے وزراکے پروٹوکول دفاتربن چکے ہیں،برآمدات میں اضافے کیلئے وزارت تجارت کی کارکردگی ناقابل اطمینان اورناقص ہے، تجارتی پالیسی2012-15کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے،کمیٹی کا عد م اطمینان کااظہار

بدھ 2 ستمبر 2015 21:22

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 02 ستمبر۔2015ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے حکومت کی جانب سے سیاسی بنیادوں پربرسلز،نیویارک اور جنیوا میں ٹریڈافسران کی تقرریوں کومستردکردیاہے،متفقہ طورپربیرون ملک ٹریڈدفاتربندکرکے افسران کوواپس بلانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہاکہ یہ دفاتر محض یہاں سے جانے والے وزراکے پروٹوکول دفاتربن چکے ہیں،برآمدات میں اضافے کیلئے وزارت تجارت کی کارکردگی ناقابل اطمینان اورناقص ہے، تجارتی پالیسی2012-15کے اہداف حاصل نہیں کیے جاسکے،نئے بھرتی کیے گئے ٹریڈ قونصلروں کے تجربے وتعلیم کے حوالے سے وزارت تجارت کے حکام کوئی جواب نہ دے سکے ،چیئرمین قائمہ کمیٹی شبلی فراز نے کہا کہ وزارت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے برآمدات دن بدن کم ہو رہی ہیں اور 80 فیصد افغان ٹریڈ پر بھارت قبضہ کر چکا ہے، ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹوایس ایم منیر نے کہاکہ بجلی، گیس، پانی کی عدم فراہمی کیوجہ سے برآمدی صنعت تباہی کے دہانے پرپہنچ چکی ہے، برآمدات بڑھانے کیلئے ڈالر110روپے کاکیاجائے۔

(جاری ہے)

بدھ کے روزسینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس چیئرمین سینیٹر شبلی فراز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا جس میں قائمہ کمیٹی نے وزارت تجارت کی کارکردگی مکمل عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے متفقہ طور پر ٹریڈ قونصلر کاعہدہ ختم کرنے اور بیرون ملک ٹریڈ دفاتر بند کرنے کی سفارش کی ۔کمیٹی کے اجلاس میں ٹریڈ قونصلر وں کی تعیناتی سیاسی بنیادوں پر کرنے اور من پسندافرادکوبغیر معیار اور تجربے کے مخصوص ممالک میں بھجنے کو ناجائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹریڈ قونصلر دفاتر سیاسی حکومتوں کے پروٹوکول دفاتر بن چکے ہیں ملک کو بجائے زرمبادلہ بجھوانے اوربرآمدات میں اضافہ کرنے کے الٹاٹریڈ قونصلروں کی وجہ سے ملک کو زرمبادلہ کا نقصان ہورہا ہے ۔

اجلاس میں سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا کے اس سوال پر کہ کچھ ٹریڈ قونصلرز نے ملک میں واپس آنے سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے حکم امتناعی لے لیا ہے جس پر انکشاف ہوا کہ وزارت نے عدالت سے حکم امتناعی واپس لینے کی اپیل توکی ہے لیکن عدالت سے سماعت کی تاریخ نہیں مل رہی ۔ کمیٹی کے اجلاس میں برسلز ، نیویارک اور جنیوا میں کچھ دن قبل بجھوائے گئے ٹریڈ قونصلروں کے تجربے وتعلیم کے حوالے سے وزارت تجارت کے حکام کوئی جواب نہ دے سکے ۔

چیئرمین شبلی فراز نے کہا کہ وزارت کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے برآمدات دن بدن کم ہو رہی ہیں افغان سے تجارت پر 80 فیصد بھارت قبضہ کر چکا ہے ،مشرق وسطیٰ یورپ اور امریکہ کے ساتھ تجارتی حجم کم ہورہا ہے وزارت کی طرف سے نامکمل تفصیلات فراہم کرنے پر چیئرمین کمیٹی شدید برہم ہوئے اور کہا کہ ریاستی اداروں اوروزارتوں کوا عداد وشمار کے ہیر پھیر سے نکل کر قومی سوچ اپنانی چاہیے ۔

سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ ہماری ٹریڈ پالیسی سیبرآمدات نہیں بڑھی ،کسی بھی ایکسپورٹرز یا ٹریڈ ر سے پوچھا جائے تو پالیسی کو مذاق قرار دے گا۔ جی ایس پی پلس ملنے کے باوجود انجام یہ ہوا کہ برآمدات میں کمی آ گئی شوگر، سٹیل، گارمنٹس فیکٹریوں کے مالکان کے علاوہ تمام اسٹیک ہولڈر رو رہے ہیں،آزادتجارتی معاہدوں سے بھی ہماری زراعت، سٹیل وشوگر اندسٹری کا بیڑہ غرق ہو گیا۔

چیئرمین کمیٹی نے سوال اٹھایا کہ2102تا915 کی تجارتی پالیسی اہداف حاصل نہیں ہوئے اس بارے میں کمیٹی کو وجوہات سے آگاہ کیا جائے۔ ٹینکروں اور فریٹ کے علاوہ تمام منیوفیکچرر ہڑتال پر ہیں ایکسپورٹس بڑھانے کیلئے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے اسلام آباد میں بیٹھ کر پالیسی بنانے کی بجائے تمام اسٹیک ہولڈروں کو اعتماد میں جس پر ڈی جی وزارت تجارت نے اعتراف کیا کہ برآمدات بڑھانے کاتین سالہ ہدف حاصل نہیں ہوا ۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ دوسرے ممالک کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدوں میں وزارت کے پاس ماہر تجارتی قانون دانوں کا فقدان ہے جس سے ملک کو نقصان ہوتا ہے،پی ٹی سی ایل کی نجکاری کے معاہدے میں شریک لا فرم کو بلیک لسٹ کر دینا چاہیے تھا جس کی وجہ سے پاکستان کے 80کروڑ ڈالر اتصلات کے پاس پھنسے ہوئے ہیں ۔سینیٹر عثمان کاکٹر نے کہا کہ ہر حکومت نے اپنے کارباری ساتھیوں کی خاطر ٹریڈ پالیسی بنائی حالانکہ سیاست کی بجائے ریاست کی پالیسی ہونی چاہیے۔

کم ترقی یافتہ علاقوں میں موجود معدنیات اورتمباکو کی برآمدمیں اضافہ کر کے زرمبادلہ بڑھایاجاسکتا ہے۔کمیٹی کے اجلاس میں اسٹیٹ لائف انشورنس بیمہ پالیسی ، کلیموں کی ادائیگی اور کارکردگی کے علاوہ ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات زیر غور رہے ۔کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہاسٹیٹ لائف انشورینس لارپوریشن کھاد پر مائیکرو انشورنس کی نئی سکیم شروع کررہی ہے جبکہ ملک سے باہر جانے والے پاکستانیوں کی گروپ انشورنس کی جاتی ہے۔

بے نظیر انکم سپورٹ میں شوشل ہیلتھ انشورنس کیلئے الگ فنڈ فراہم کیا گیا ہے ۔ فوت ہونے والے بیمہ داروں کاغذات مکمل ہونے پرایک ہفتے میں کلیم ادا کر دیا جاتا ہے ۔تاہم جب سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والا نے اس کی تفصیلات طلب کی تواسٹیٹ رائف انشورنس کارپوریشن کے حکام لاجواب ہوگئے اورکسی ایک بیمہ دارکانام نہ بتاسکے،جس پر قائمہ کمیٹی نے ادا کیے گئے تمام چیکوں کی تفصیل بمعہ پتہ اگلے اجلاس میں پیش کرنے کی ہدایت کردی ۔

۔ سینیٹر سلیم ایچ مانڈوی والانے کاکہ یہ المیہ ہے کہ حکومتی کارپوریشنیں اسٹیٹ بینک کے ٹی بلزاوربانڈخریدنے پرسرمایہ کاری کررہی ہیں اوراس منافع کماکرخوش ہیں۔ قائمہ کمیٹی نے چیئرمین اسٹیٹ رائف انشورنس کارپوریشن نرگس گھلوکو ہدایت کی کہ بورڈآف ڈائریکٹرز میں ہر صوبے کونمائندگی دی جائر اورکوئٹہ وپشاورکوالگ ریجن بنایاجائے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے میڈیا رپورٹس کے حوالے سے سوال اٹھایا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک نے اسٹیٹ لائف کارپوریشن کی شفافیت کے حوالے سے اعتراضات اٹھائے ہیں جس پر آگاہ کیا گیا کہ ایس ای سی پی اس حوالے سے کارپوریشن کی بہتری کیلئے کنسلٹنٹ رکھا جائے گا تفتیش کاروں کی تربیت شروع کی جارہی ہے کمپیوٹرائیزیش بھی کررہے ہیں۔

اجلاس میں ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی کے کے سی ای او ایس ایم منیر نے آگاہ کیا کہ ٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سکینڈل میں دو سابق سی ای او اقبال طارق پوری اور عابد جاوید گرفتار ہوچکے ہیں ۔ مذکورہ سکینڈل میں بیرون ملک بے نامی ویئر ہاؤسز کے نام پر کروڑوں کے چیک جاری ہوئے اور نیشنل بنک سے ادائیگیاں ہوتی رہیں حالانکہ کمپنیاں موجود ہی نہیں تھیں بے نامی چیک جاری ہوئے نیچے سے اوپر تک عملہ ملا ہوا تھا۔

جس پر چیئرمین کمیٹی سلیم ایچ مانڈوی والا نے کہا کہ اتنا بڑا گھپلا ہو گیا وزارت کے سیکرٹری اور اعلیٰ افسران میں سے کسی نے شکایت نہیں کی۔وزارت تجارت کے سینئرآفیسراشرف نے اس بارے میں بتایا کہ کل چار ارب 27 کروڑ کی رقم کی معاملہ تھا جس میں 50 کروڑ لیپس ہونے کی وجہ سے بچ گئے, 25 کروڑ کی ریکوری کر لی گئی ہے اور 94 کروڑ روپے کی وصولی کامعاملہ باقی ہے۔

سی ای اوٹریڈڈویلپمنٹ اتھارٹی نے آگاہ کیا کہ کراچی ایکسپو میں 800 کاروباری افراد نے بیرون ملک سے شرکت کی جبکہ اس میں تین ارب ڈالر کے معاہدات ہوئے ،دبئی کے ٹی ٹونٹی میچوں کے دوران ہوٹلوں کے استعمال کی اشیا کے پاکستان نے ایک ارب کے آرڈر حاصل کیے ہیں۔انہوں نے کہا کہ برآمدات بڑھانے کیلئے بعض اقدامات ناگزیز ہو گئے ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کو بھی آگاہ کر دیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ بجلی گیس اور پانی کی عدم فراہمی مہنگی ہونے کے باعث صنعتیں متاثر ہو رہی ہیں اگر ایکسپورٹس بڑھانی ہیں تو صنعت کے مسائل کوحل کرنا ہوگا ۔

سیکرٹری وزارت تجارت نے بتایا کہ کابینہ نے ایک خصوصی کمیٹی تشکیل دی ہے جو کہ اس صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے اور حکومت تمام مسائل سے بخوبی آگاہ ہے اسکا مناسب حل نکالنے کیلئے مشاورت کا سلسلہ شروع کردیاہے۔قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ یہ صورتحال انتہائی اہم ہے اور اس پر متعلقہ حکام سے ماہواربنیادوں پررپورٹ لی جائے گی ۔