ملک بھر میں پاکستان ریلوے کی 4340ایکڑ اراضی پر لینڈ مافیا اور بعض سرکاری اداروں کے قبضے میں ہے

سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں انکشاف، کمیٹی کا کے پی کے بلوچستان اور پنجاب کے چیف سیکرٹریوں اور اٹارنی جنرل کی اجلاس میں عدم شرکت پر اظہار برہمی صوبائی حکو متوں نے قبضہ واگزار نہ کر ایا تو سپریم کورٹ جائیں گے، دو سال کے اندر ادارے کی تمام اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹرائز کر لیا جائیگا ، اقتصادری راہداری منصوبے میں ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کی فزیبلٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے ، کسی حکومتی شخصیت کسی با اثر گروپ ادارے خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو بلا تفریق ریلوے کی انچ انچ زمین واپس لی جائیگی، وفاقی وزیر ریلوے سعدرفیق کی کمیٹی کوبریفنگ

جمعہ 4 ستمبر 2015 20:14

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 04 ستمبر۔2015ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے میں انکشاف ہو ا ہے کہ ملک بھر میں پاکستان ریلوے کی 4340ایکڑ سے زائد اراضی پر تا حال قبضہ موجود ہے 3548ایکڑ ریلوے اراضی پر پرائیویٹ افراد قابض ہیں جبکہ 540ایکٹر سے زائد اراضی پر سرکاری ادارے قابض ہیں، ریلوے کی 251ایکڑ سے زائد اراضی دفاعی اداروں کے پاس ہے۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کمیٹی کو بتایا کہ صوبائی حکو متوں نے سپر یم کورٹ کے حکم کے مطابق ریلوے کی زمین پر قبضہ واگزار نہ کر ایا تو انکے خلاف سپریم کورٹ جائیں گے، ریلوے اراضی کا ملک بھر میں آڈٹ شروع کرا دیا گیا ہے ، سندھ میں آڈٹ معاملات میں مشکلات ہیں،دو سال کے اندر پاکستان ریلوے کی زمینوں کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز کر لیا جائیگا ،پاک چین اقتصادری راہداری منصوبے میں ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کی فزیبلٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے ، پاکستان ریلوے کی زمین قومی اثاثہ ہے کسی حکومتی شخصیت کسی با اثر گروپ ادارے خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو بلا تفریق ریلوے کی انچ انچ زمین واپس لی جائیگی، ریلوے کو 32ارب کا خسارہ تھا جو کم ہو کر 27ارب تک لے آئے ہیں،چیئر مین کمیٹی نے کے پی کے، بلوچستان اور پنجاب کے چیف سیکرٹریز اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی کمیٹی اجلاس میں عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کر تے ہوئے کہا کہ بیوروکر یسی فیڈریشن کو کمزور بنانا چاہتی ہے سیکرٹریز اور اٹارنی جنرل نے اجلاس میں شرکت نہ کر کے غیر ذمے داری کا ثبوت دیا ایکشن لینے پر مجبور نہ کیا جائے، دنیا بھر میں ریلوے ٹریک کیساتھ تجارتی عمارتیں بنا کر منافع کمایا جا رہا ہے اور اداروں کو بھی مضبوط کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں قومی اثاثے کو بے دریغ لوٹا جا ر ہا ہے ۔

(جاری ہے)

جمعہ کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین قائمہ کمیٹی سردار فتح محمد محمد حسنی کی زیر صدار ت پارلیمنٹ ہاوس میں ہوا۔ جس میں سینیٹرز حافظ حمد اﷲ، تاج آفریدی ،صلاح الدین ترمزی ، محمد اعظم خان موسیٰ خیل، زاہدہ خان کے علاوہ وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق ، سیکریٹری ریلوے آفتاب اکبر ، سیکریٹری ریلوے بورڈ پروین آغا کے علاوہ چاروں صوبوں کے ممبر ریونیو ڈپٹی اٹارنی جنرل سپریم کورٹ ، صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز نے شر کٹ کی ۔

وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ پاکستان ریلوے کی زمین قومی اثاثہ ہے کسی حکومتی شخصیت کسی با اثر گروپ ادارے خواہ اس کا تعلق حکمران جماعت سے ہی کیوں نہ ہو بلا تفریق ریلوے کی انچ انچ زمین واپس لی جائیگی اور کہا کہ صرف صوبہ خیبر پختونخواہ نے ریلوے زمین کی90فیصد ملکیت ریلوے کے نام منتقل کر دی ہے اور کہا کہ صوبہ پنجاب کی طرف سے قسطوں میں دو ارب روپے وصول ہو گئے ہیں ،صوبہ بلوچستان سے بھی رابطے میں ہیں سب سے زیادہ دقت صوبہ سندھ میں ہو رہی ہے جہاں ریلوے گوداموں کے بقایا جات وصول کرنے اور انکشاف کیا کہ کراچی شہر میں انتہائی قیمتی زمین واہگزار کرانے کیلئے مسائل کا سامنا ہے لیکن قانون سے باہر بھی جاناپڑا تو جاؤں گا ۔

چیئر مین کمیٹی سردار فتح محمد محمد حسنی نے کہا کہ دنیا بھر میں ریلوے ٹریک کیساتھ تجارتی عمارتیں بنا کر منافع کمایا جا رہا ہے اور اداروں کو بھی مضبوط کیا جا رہا ہے لیکن پاکستان میں قومی اثاثے کو بے دریغ لوٹا جا ر ہا ہے سیاسی نظریات سے بالا تر ہو کر پارلیمنٹ کمیٹی میں بیٹھتے ہیں قومی اثاثے کو لوٹنے والے مجرموں کیساتھ رعایت نہیں کی جا سکتی اور ہدایت دی کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ریلوے کی اپنی زمین ریلوے کے نام ٹائٹل تبدیل نہ ہونے والی زمین صوبوں کے استعمال میں ریلوے کی زمین ،صوبوں اور اداروں کے پاس ریلوے کے بقایا جات کی ادائیگی کے علاوہ وزارت ریلوے قابضین سے زمین واہگزار نا کرا کر توہین عدالت اور توہین پارلیمنٹ کی مرتکب ہو رہی ہے آج سے ہی ریلوے کی زمین پر موجود ہر قسم کی تعمیرات کو گرا دینا چاہیے ۔

چیئر مین کمیٹی نے وزارت ریلوے کی طرف سے ریلوے کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے اقدامات کو سراہا۔ چیئر مین کمیٹی نے انکشاف کیا کہ بلوچستان میں ایم پی اے کی سفارش پر سکولوں کے ہیڈ ماسٹر ڈی سی لگا دیے گئے اور ان میں وہ بھی شامل ہیں جن کے اوپر کرپشن کے اقدامات ہیں اور بعض تو وزیر اعلیٰ بلوچستان کو بھی نہیں جانتے ۔سینیٹر ہمدا ﷲ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اردو کی بریفنگ ، اردو زبان میں اجلاسوں کی کاروائی کے واضع حکم کے باوجود وزارت ریلوے نے بریفنگ پیپر اردو میں فراہم نہیں کیا وزارت اور کمیٹی بھی بادی لنظر میں توہین عدالت کی مرتکب ہے اور کہا کہ جہاں صوبے ریلوے کو زمین متقل نہیں کر رہے وہاں سب سے زیادہ قبضے بھی دفاعی اداروں نے کئے ہوئے ہیں کیا کمیٹی دفاعی اداروں سے بھی ریلوے کی زمین واہگزار کرا سکتی ہے ۔

جس پر وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے آگاہ کیا کہ دفاعی اداروں نے ہی سب سے زیادہ ریلوے اراضی ریگولرائز کرائی ہے ۔خواجہ سعد رفیق نے مزید بتایا کہ 32ارب کا خسارہ تھا جو مشکل سے کم کر کے 27ارب تک لے آئے ہیں صوبوں نے ریلوے زمین کیلئے تعاون نہ کیا تو سپریم کورٹ جائیں گے ۔ماضی میں ملی بھگت سے زمینو ں پر قبضوں کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا ہے ۔ریلوے اراضی کا ملک بھر میں آڈٹ شروع کرا دیا گیا ہے ۔

سندھ واحد صوبہ ہے جہاں آڈٹ معاملات میں مشکلات ہیں ۔دو سال کے اندر پاکستان ریلوے کی زمینوں کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائز کر لیا جائیگا۔ ملک بھر میں 540ایکٹر سے زائد اراضی پر سرکاری ادارے قابض ہیں پاکستان ریلوے کی 251ایکڑ سے زائد اراضی دفاعی اداروں کے پاس ہے پنجاب میں سب سے زیادہ 1872ایکڑ اراضی پر پرائیویٹ افراد کا قبضہ ہے ۔پاک چین اقتصادری راہداری منصوبے میں ریلوے ٹریک کی اپ گریڈیشن کی فزیبلٹی رپورٹ تیاری کے مراحل میں ہے ۔

کے پی کے کی 1431ایکڑ زمین واگزار کرا لی گئی 91ایکڑ باقی ہے ۔چیئر مین کمیٹی نے کے پی کے بلوچستان اور پنجاب کے چیف سیکرٹریوں اور اٹارنی جنرل آف پاکستان کی عدم شرکت پر اظہار برہمی کیا تو خواجہ سعد رفیق کمیٹی سے اجازت لے کر اٹارنی جنرل سے رابطے کیلئے باہر گئے واپسی پر آگاہ کیا کہ اٹارنی جنرل کی بیٹی کی شادی ہے ۔چیئر مین کمیٹی نے بھی وزیر ریلوے کی طرح کہا کہ اگر ریلوے زمین کی واپسی کے لئے تعاون نہ کیا تو پارلیمنٹ کی طرف سے سپریم کورٹ جائیں گے اور جس صوبے سے مطمین ہونگے اس کا فیصلہ آج ہی کیا جائیگا۔

کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ وزارت ریلوے مقدمات کی پیروی ، عدالتوں سے فیصلے حاصل کرنے کیلئے ماہر قانون دانوں کی خدمات حاصل کریگی اور چوری شدہ پڑیوں کے حوالے سے وزارت ریلوے سے بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا گیا۔